• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچھو سے کسی نے پو چھا ’’تم گرمیوں میں نظر آتے ہو، سردیوں میں نظر کیوں نہیں آتے؟‘‘بچھو نے جواب دیا ’’گرمیوں میں میرے ساتھ کونسا اچھا سلوک کیا جاتا ہے کہ سردیوں میں بھی نظر آئوں؟‘‘ اب نیا سال شروع ہوا ہے تو خیال آیا کہ بھلا جانے والے سال نے ہمیں کتنی خوشیاں دی ہیں کہ نئے سال سے کچھ زیادہ توقعات رکھی جائیں؟ لیکن کسی نے یہ بھی تو کہا ہے کہ ہر نئے سال کے ساتھ یہ خرابی ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک سال میں ختم ہو جاتا ہے۔ اصل میں تو یہ اپنے اپنے سوچنے کا انداز ہے۔ کس کے لئے جانے والا سال کیسا گزرا؟ یہ وہی بتا سکتا ہے۔ اگر ذاتی طور پر دیکھا جائے تو ہمارے لئے پچھلا سال ویسے ہی گزرا جیسے اس سے پہلے سال گزرتے رہے ہیں یعنی’’نہ ساون سوکھے نہ بھادوں ہرے‘‘۔ بس گزر رہی ہے جیسے تیسے۔ کہہ لیجئے کہ اچھی ہی گزر رہی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ سوال ہم سب کی نیندیں حرام کرتا ہے۔ کچھ نہیں تو نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ڈو نلڈ ٹرمپ صاحب نے ایسی دھمکی دے دی کہ اب ہر طرف اس دھمکی کا ہی چرچا ہے۔ سارے بحث مباحثے ختم ہو گئے ہیں بس ایک دھمکی ہے جس پر اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہر ایک اپنی رائے ظاہر کر رہا ہے۔ کچھ تو ایسے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ ہم بھی امریکہ کو مزہ چکھا سکتے ہیں۔ ہم اس کے فضائی راستے بند کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہم نے جو زمینی راستے کھول رکھے ہیں انہیں بھی بند کر سکتے ہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جسے ہمارے کچھ وزیر اور کچھ میڈیا پروان چڑھا رہا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ عام آدمی کی رائے پر ہمارا میڈیا ہی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے ہر طرف سے آوازیں آ رہی ہیں کہ ڈٹ جائو امریکہ کے سامنے۔ تعلقات ختم کر لو اس کے ساتھ۔ لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے اب تک جو موقف اختیار کیا ہے وہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں کی جا رہی ہے جس سے حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ ظاہر ہے ہماری وزارت خارجہ کے سامنے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی پوری تاریخ ہے۔ ذرا سوچئے، ہم کب سے امریکی گندم، امریکی گھی اور اس کے ڈالر نہیں کھا رہے ہیں؟ ہمارے ہتھیار امریکہ سے آتے رہے ہیں۔ ہمارے جنگی جہاز امریکی ہیں۔ ہم بین الاقوامی اداروں سے جو قرض لیتے رہے ہیں اس میں بھی امریکی تعاون ہی موجود ہوتا ہے۔ اور پھر ہم یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں امریکی طیارے ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کی لاش لے کر خاموشی سے واپس چلے جاتے ہیں اور ہمیں کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اس صورت میں ملک کے اندر جنگی جنون پیدا کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟
لیکن خدانخواستہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا جواب نہیں دینا چاہئے۔ جواب ضرور دینا چاہئے، مگر حالات اور حقائق کو سامنے رکھ کر۔ اب رہے ٹرمپ صاحب، تو سب جانتے ہیں کہ وہ عجیب الخلقت انسان ہیں۔ اور امریکی الیکشن کی بوالعجبی نے انہیں اس مقام تک پہنچایا ہے یعنی الیکشن میں ووٹ کسی کو زیادہ ملے لیکن بعض ریاستوں کی زیادہ طاقت کی بنیاد پر ٹرمپ صاحب جیت گئے۔ اس الیکشن کے طریقہ کار پر تو امریکی ادب اور افسانوں میں بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ سعدیہ شیپرڈ پاکستانی نژاد امریکی افسانہ نگار ہیں۔ 6؍جنوری کے’’ نیو یارکر‘‘ میں ان کا جو افسانہ Foreign Returned کے نام سے چھپا ہے، اگرچہ اس میں امریکی الیکشن کے طریق کار کا ذکر ضمناً ہی آیا ہے لیکن اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی اس پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اسی قسم کے الیکشن کی وجہ سے ہی جارج بش (جونیئر) صدر بنے تھے۔ اپنے عامیانہ پن میں وہ بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ان کا بھی مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان پر جو ایک کتاب لکھی گئی تھی اس کا اردو ترجمہ مرحوم حسن عابدی نے ’’گھامڑ گورے‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اب ٹرمپ صاحب کا بھی ان کے اپنے ملک میں خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ بھلا بتایئے کسی ملک کا صدر سویرے سویرے آنکھ کھلتے ہی اپنے موبائل فون پر ٹویٹ کرنا شروع کر دے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ امریکہ کے ٹی وی چینل اور بڑے بڑے اخبار سب اپنے صدر صاحب کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس معاملے میں سوشل میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ کسی نے ایک ویڈیو بھیجی ہے جس میں ٹرمپ صاحب کو فلم میں کام کرنے کے لئے بے چین دکھایا گیا ہے۔ آپ کو فلمHome Alone یاد ہو گی۔ اس فلم کے دوسرے حصے کی شوٹنگ ایک ہوٹل میں ہو رہی تھی۔ وہ ہوٹل ٹرمپ صاحب کا تھا۔ ٹرمپ صاحب پیشکش کرتے ہیں کہ اگر منٹ دو منٹ کے لئے انہیں بھی اس فلم میں دکھا دیا جائے تو فلم والوں سے ہوٹل کا کرایہ نہیں لیا جائے گا۔ چنانچہ فلم کا ہیرو لڑکا جب ہوٹل میں داخل ہوتا ہے اور کسی جگہ کا پتہ پوچھتا ہے تو جو صاحب اسے راستہ دکھاتے ہیں وہ ٹرمپ صاحب خود ہیں۔ یہ ان کی صدارت سے کئی سال پہلے کی بات ہے۔ لیکن یہ نہ سمجھ لیجئے کہ ٹرمپ صاحب کا مذاق اڑانے کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں ان کے بعض خیالات سے بھی اختلاف کیا جا رہا ہے۔ وہ جو پاکستان سےDo More کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وہ مطالبہ ٹرمپ کا ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے کی حکومتیں بھی پاکستان سے یہی مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ٹرمپ کا انداز عامیانہ سا ہے دوسری حکومتوں کا انداز مدبرانہ تھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو آخرکار کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اسی لئے تو کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں جنگی جنون پیدا کرنے کے بجائے مدبرانہ راستہ اختیار کیا جائے۔ تھوڑی بہت دھمکی دینے کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے دی جائے لیکن صبر و تحمل کے ساتھ بات چیت کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اور دفاعی سطح پر آج بھی یہ راستہ کھلا ہوا ہے۔
اب چلتے چلتے نئے سال کی ایک خوشخبری کا ذکر بھی کر دیا جائے۔ یہ خوشخبری عمران خاں کی نئی شادی کی ہے۔ عمران خاں اس خاتون کے پاس روحانی ترفع حاصل کرنے جاتے تھے۔ یہ پانچ بچوں کی ماں اپنے پہلے شوہر سے خلع لے چکی ہیں۔ اس لئے عمران خاں سے شادی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ بہرحال، شادی ہر ایک کا ذاتی فعل ہوتا ہے، لوگ خواہ مخواہ دیوانہ ہو رہے ہیں۔ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ خدا کرے یہ تیسری شادی عمران خاں کو راس آ جائے۔ لیکن اس خاتون کا صاحب زادہ کہتا ہے کہ اس کی والدہ ہر وقت اللہ اللہ کا ورد کرتی رہتی ہیں۔ اس لئے ہمیں ڈر یہ ہے کہ اگر عمران خاں بھی اپنی نئی بیگم کی طرح ایسے ہی وظائف میں مشغول ہو کر دنیا اور مافیہا سے بے خبر ہو گئے تو تحریک انصاف کا کیا ہو گا؟ یہ جماعت انہی کے دم سے تو ہے۔

تازہ ترین