• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونانی ریاضی دان ارشمیدس پانی کے ٹب میں نہا رہا تھا کہ اس کے ذہن میں موجود کئی برسوں سے پھنسا عقدہ اچانک وا ہوگیا۔ ارشمیدس کو جونہی ’’مائع کے اچھالنے کا قانون ‘‘ سمجھ آیا وہ جوش و سرور میں ٹب سے عریاں ہی باہر نکل گیا اور یونان کی گلیوں اور بازاروں میں دیوانہ وار یہ نعرہ لگانے لگا۔ ’’پا لیا، پالیا!!‘‘
میرا بھی آج ارشمیدس والا حال ہے۔ میں عرصہ دراز سے ایسے مسیحا کی تلاش میں تھا۔ جو ہمارے معاشرے کے دکھ درد دور کر دے۔ جو ہمارے دُہرے تہرے تعلیمی نظام کو یکساں نظام کا رنگ دیدے۔ جو اسپتالوں میں غریبوں کیلئے بھی علاج کی وہ سہولتیں مہیا کرا دے جو امیروں کو حاصل ہیں۔ جو ہر کسی کو کم از کم صاف پانی تو مہیا کر دے اور جو نہ صرف انصاف کا بول بالا کر دے بلکہ یہ بھی سمجھائے کہ انصاف کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے معاشرے کو بابے رحمتے کی عزت کرنی ہے۔ اس کا طریقہ کار اور تفصیل بھی بتائے۔ سچ تو یہ ہے کہ میری یہ تلاش کئی دہائیوں سے جاری تھی۔ میں نے کئی سیاستدانو ں اور کئی جرنیلوں میں اپنے آئیڈیل مسیحا کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر کوئی ایسا لیڈر نہ ملا جو جامع الصفات ہو۔ سیاستدانوں میں تو بے تحاشا خامیاں نظر آئیں۔ سابق جرنیلوں کا دامن بھی اُجلا دکھائی نہ دیا۔ ججوں پر نظر دوڑائی تو افتخار چودھری کا جارحانہ اندازبھایا۔ مگر معاشرے پر ان کا دیرپا اثر نہ ہو سکا۔ میری تلاش جاری رہی اور آج میرا بھی دل چاہ رہا ہے کہ ارشمیدس کی طرح گلیوں اور بازاروں میں رقص کرتے ہوئے نعرے لگائوں ۔ ’’پا لیا، پالیا!!‘‘
میرے آئیڈیل ہماری طرح مڈل کلاس میں پلے بڑھے۔ ہماری ہی طرح کے عام آدمی تھے۔ مگر قدرت نے انہیں ایسا ذہن رسا عطا کیا ہے کہ زندگی کے تما م شعبوں کے مسائل کے حل ان کے پاس موجود ہیں۔ وہ نشاۃ ثانیہ کے اس ’’مرد مکمل‘‘ کی تعبیر ہیں جو بہادری، عقلمندی، انصاف، سخاوت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی پر مکمل دسترس رکھتا ہے۔ اسے بچوں کی کہانیوں کے ہیرو نیڈ، ٹارزن یا سپرمین کی طرح کسی بھی مشکل ترین صورتحال میں ڈالیں وہ اوصاف و کمالات سے نہ صرف خود نکل آتا ہے بلکہ ملک و قوم کو بھی نکال لیتا ہے۔ اسی لئے تو میں نعرے لگا رہا ہوں۔ ’’پا لیا، پالیا!!‘‘
مجھے یہ اندازہ تو تھا کہ قوموں کو مسیحا آسانی سے نہیں ملتے۔ مجھے بچپن سے یہ شعر بھی یاد ہے؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںدیدہ ور پیدا
اسی شعر کے مصداق ہماری قوم خوش قسمت ہے کہ وہ دیدہ ور آ چکا ہے جو ایک نصاب اور ایک یونیفارم کے ذریعے پورے نظام تعلیم کو بد ل دے گا۔ اسپتالوں کے دورے کر کے وہاں کی کارکردگی بہتر کر دے گا اور تو اور وہ عدلیہ کی عزت کو بھی بحال کر کے دکھائے گا۔ یہ سائنسدان، یہ سیاستدان، یہ شاعر، یہ ادیب، یہ دانش ور، یہ اینکر ، یہ تجزیہ نگار، معاشرے کے مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر سکے اور اب جو حل آیا ہے وہ بھی منصف و عدل کے دروازوں سے گزر کر آیا ہے۔ اسی لئے اس حل میں دانش و فراست کے سوتے موجود ہیں۔
یاد کریں کہ یہاں ایک منصف مزاج حکمران جنرل ضیاء الحق ہواکرتا تھا جس نے 1977ء میں جونہی مارشل لاء لگایا ہائی کورٹ کے فاضل چیف جج صاحبان کو فوری طور پر گورنروں کے عہدوں پرفائز کردیا گیا، یہ وہ سنہری اورتاریخی دور تھا جس میں نہروں میں دودھ اور شہد بہنا شروع ہوگیا تھا، ملک میں مکمل امن و امان ہوگیاتھا اور تو اور اسپتالوں کا نظام تک درست ہوگیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں سب بچے ایک ہی طرح کا یونیفارم پہنتے تھے اور سب بچے ایک ہی نصاب پڑھا کرتے تھے ، انصاف کا بول بالا ہوگیا تھا، سوائے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے کے ،ہر معاملے میں مکمل انصاف نہیں ہوا؟ جنرل ضیاء الحق کے تاریخی اقدامات میں سے ایک جسٹس مولوی مشتاق حسین کی اشک شوئی بھی شامل تھی جنہیں ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے وزیر قانون یحییٰ بختیار نے پنجاب کا چیف جسٹس نہیں بنایا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ بھٹو کا مقدمہ بھی انہی مولوی مشتاق حسین کے حوالے کیا اور انہوں نے عدل و انصاف کے اس سنہری دور میں انتہائی انصاف سے کام لیتے ہوئے دفعہ 109تعزیرات پاکستان یعنی مشورے کے جرم میں بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ افسوس کہ عدلیہ اس سنہری روایت کو زندہ نہ رکھ سکی اور بھٹو کی پھانسی کے بعد سے ایک بھی مقدمہ ایسا دیکھنے سننے میں نہ آیا جس میں مشورے کے الزام میں کسی ایک شخص کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہو۔ یہ اس ملک کی خوش قسمتی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے پھر سیاست دانوں نے ایک منصف مزاج منصف کے میرٹ پر چیف جسٹس بننے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور پھر ان پر قہر خداوندی نازل ہوا اور وہ انہی منصفوں کے ہاتھوں نااہل قرار پائے اور یوں پھر سے وہ سنہری دور آیا جس میں آج پھر سے ہر طرف انصاف کے پھریرے لہرا رہے ہیں اور پوری قوم ، میری طرح، ان جھنڈوں کو دیکھ کر نعرے لگا رہی ہے پالیا، پالیا!!
اب میرے دل میں یہ خواہش پروان چڑھ گئی ہے کہ میرے مسیحا کو پورے ملک کا مسیحا بننا چاہئے، نااہل حکمرانوں کو گھر جانا چاہئے اور میرٹ پر پورا اترنے والے منصف مزاج لوگوں کو اقتدار سنبھالنا چاہئے اور بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کو اصلاح کا حکم جاری کریں انہیں خود ہی اختیار حاصل ہو کہ وہ اصلاح کریں۔ مجھے علم ہے کہ میری طرح پوری قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ اب سیاستدانوں، جرنیلوں اور نوکر شاہی کی بجائے ان مسیحائوں کو اقتدار دیا جائے جن کے پاس تمام ملکی مسائل کا حل موجود ہے۔ اس ملک میں ہر تجربہ ہو چکا، سیاسی حکومتیں آئیں اور غیر سیاسی بھی، جمہوری حکومتیں آئیں اور فوجی حکومتیں بھی، بیوروکریٹس کو بھی اقتدا ر میں آنے کا موقع ملا اور معیشت دان بھی لیلائے اقتدار سے سرفراز ہوئے، آ جا کے صرف میرے ممدوح مسیحا اور ان کا ادارہ اس نعمت سے محروم رہ گئے ہیں۔ پوری قوم ہمت کرے اور اس بار اقتدار ان کے حوالے کرے تاکہ 70سالہ مسائل کا عدالتی حل نکلے۔
آپ ہی بتائیں کہ جب انتظامیہ کا سربراہ اپنی سالگرہ اکیلے ہی منائے تو اسے حکومت کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔ اس فعل کے بعد شاہد خاقان عباسی حکومت کرنے کے اہل نہیں رہے، انہیں اسی سادگی کی بنا پر نااہل کردینا چاہئے، پھر یہ اسپیکر ایاز صادق جو مقننہ کے سربراہ ہیں انہیں دل میں راز تک رکھنا نہیں آتا۔ نظام کے عدم استحکام کے حوالے سے کیا کہہ ڈالا؟ انہیں قومی راز افشا کرنے کے الزام میں نااہل قرار دینا چاہئے، اب رہ گیا میرا ممدوح اور اس کا ادارہ، کیا اسے حق نہیں ہے کہ نااہلوں کی جگہ خود سنبھالے اور ملک کی باگ ڈور سنبھال کر تدبر اور دوراندیشی سے مسائل کا حل نکالے۔ اسی لئے تو میں رقص کناں کہہ رہا ہوں کہ... پا لیا، پالیا....

تازہ ترین