• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھوٹے صوبوں سے آوازیں اٹھتی تھیں۔ پنجاب کے جنرل۔ پنجاب کے جج کبھی پنجاب کے وزیراعظم کے خلاف قدم نہیں اٹھاتے۔ اب چشم فلک دیکھ رہی ہے۔ ان کا نشانہ پنجاب کا وزیراعظم ہی ہے۔ لیکن اس سے چھوٹے صوبوں کو کچھ فائدہ ہورہا ہے کیا ان کے مسائل حل ہورہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا چھوٹے صوبوں کے پاس ایسی قدآور متبادل قیادت ہے۔
تماشا کچھ ہوتا ہے۔ اصل کچھ اور۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکی صحافی اور مصنّف رابرٹ ڈی کپلان پاکستان کے دورے پر آئے۔ بہت سے شہروں سے گزرے۔ واپس جا کر انہوں نے لکھا کہ پاکستان میں بظاہر جنگ فوجی آمریت اور جمہوریت کے درمیان ہے۔ لیکن اصل خطرات جو جنم لے رہے ہیں وہ کچھ اور ہیں۔ میں نے وہاں شدید فرقہ واریت اور جہادی تنظیمیں اُبھرتی ہوئی دیکھی ہیں۔ جو اس معاشرے کے لئے بہت تباہ کن ہوں گی۔ انہوں نے مثال دی کہ میں نے یوگوسلاویہ میں دورے کے بعد بھی لکھا تھا کہ وہاں بظاہر جنگ کمیونزم اور آزاد دنیا کے درمیان تھی۔ لیکن وہاں مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہی بعد میں شعلے بن کر بھڑکیں۔
اس وقت بھی قائداعظم کے۔ آپ کے اور میرے پاکستان میں بظاہر جنگ جمہوریت، فوج اور عدلیہ کے درمیان ہے۔ لیکن تقویت مذہبی تنظیموں اور دینی محسوسات کو حاصل ہورہی ہے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا عام تاثر یہ نہیں ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں ملک کو آگے لے جانے۔ عام پاکستانی کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ یہ بھی کہ فوج کو جتنی بار موقع ملا ہے۔ وہ بھی ملک کا نظم و نسق چلانے میں ناکام رہی ہے۔ ملک کی اکثریت اس کا حل اسلامی نظام کے قیام میں خیال کرتی ہے۔ جس کا ہمارے ہاں اب تک باضابطہ تجربہ نہیں ہوا ہے۔ایک سروے کے مطابق 38 فیصد پاکستانی اسلامی نظام چاہتےہیں۔
کوئٹہ کی کسی گلی میں۔ ملتان کی کسی سڑک پر۔ مردان کے کسی محلّے میں۔ کراچی کی کسی چورنگی پر گلگت کے کسی چوراہے پر مظفر آباد کے کسی بازار میں۔ فاٹا کی کسی ایجنسی میں۔ کسی سے بھی آپ پوچھیں۔ وہ یہی کہے گا ہماری نجات اسلامی نظام میں ہے۔
اکثریت کی اس آرزو کا احساس ہر پارٹی کو ہے۔ اس لئے وہ دکھاوے کے طور پر ایسے نعرے ضرور لگاتے رہے ہیں۔ کسی نے اپنی اساسی دستاویز میں لکھا ’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘۔ کوئی پارٹی کہتی ہے ’’قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘‘۔ کوئی مدینہ جیسی ریاست بنانے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن ان میں سے جس کو بھی حکومت کا موقع ملا۔ اس دوران میں بھی۔ اس کے علاوہ بھی کبھی کوئی مکمل دستاویز ایسی پیش نہیں کی جس سے اکیسویں صدی کے عالمی۔ سماجی۔ اقتصادی۔ سیاسی اور سائنسی تناظر میں ایک اسلامی حکومت کا خاکہ سامنے آسکتا۔ 70 سال میں جتنے حکمران بھی سامنے آئے ہیں۔ سیاسی اور فوجی دونوں۔ کسی نے بھی ایک مثالی مسلم حکمران کا کردار ادا نہیں کیا۔
ایک سچّے اسلامی نظام کی خواہش کے پیچھے پاکستان میں بہت سے عوامل ہیں۔ اسے محض جذباتی نعرہ سمجھنا حقائق سے روگردانی ہوگی۔ اس کے پس منظر میں 70 برس کی ناانصافیاں ہیں۔ اکثریت پر ٹوٹنے والے مظالم ہیں۔ چند خاندانوں کا وسائل پر مسلسل قبضہ ہے۔ دیہات میں رہنے والے اصل پاکستانیوں پر جاگیرداروں کا تسلط ہے۔ خواندگی کی سب سے کم شرح ہے۔ پنجاب۔ سندھ۔ بلوچستان۔ کے پی کے قبائلی علاقوں میں ابھی تک پندرہویں سولہویں صدی کی روایات ہیں۔
بہت سے جمہوری حکمراں آئے۔ بہت مقبول۔ ہردلعزیز۔ ان کے نعرے بھی لگتے ہیں۔ زندہ ہے۔ زندہ ہے۔ لیکن ان کی پالیسیاں۔ ان کے نظریات۔ ان کی اپنی جماعتوں اور حکومتوں میں نظر نہیں آتے۔ ایک جریدے نے یہ جائزہ بھی لیا کہ پاکستان پر کس حکمران کی پالیسیوں اور نظریات نے سب سے زیادہ اثر مرتب کیا۔ مخالفت اور شدید نفرت کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑی کہ اس بدقسمت معاشرے میں سب سے زیادہ اثرات جنرل محمد ضیاء الحق کی پالیسیوں کے پائے جاتے ہیں۔ ان کا دور سب سے زیادہ نتیجہ خیز رہا ہے۔ گوادر سے لاہور تک ان کے نقوش قدم دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ اثرات منفی ہیں یا مثبت۔ یہ الگ بات ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے۔ ان اثرات کے تسلسل کو کسی حکمران میں روکنے کی جرأت نہیں ہوسکی۔
اب تجزیہ یہ کرنا چاہیے کہ کیا جنرل ضیاء میں حکمرانی کی دوسرے حکمرانوں سے زیادہ صلاحیت تھی یا ہماری اکثریت میں واقعتاََ ان پالیسیوں کے لئے قبولیت اور اپنائیت زیادہ تھی۔ اور ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ حیرت بھی کہ جنرل ضیاء کا سیاسی جانشین کوئی بھی بننے کو تیار نہیں ہے۔ اتنے موثر حکمران اور لیڈر کی موروثی سیاست نہیں چلی ہے۔ کوئی نعرہ نہیں لگاتا۔ ضیاء زندہ ہے۔ لیکن سیاسی رہنمائوں کے کردار میں۔ دفتروں میں۔ بہت سی مذہبی تنظیموں میں جنرل ضیاء اب بھی زندہ نظر آتے ہیں۔
اب آتے ہیں ہم اس اہم نکتے کی طرف کہ کیا مذہبی جماعتیں۔ جہادی تنظیمیں۔ حکمرانی کی اہل ہیں۔ 20 کروڑ انسانوں۔ مضبوط فوج۔ ایٹمی طاقت۔ بے حساب قدرتی وسائل۔ 60فیصد نوجوان آبادی اور انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت۔ دشمن ہمسایوں میں گھرے۔ ایک سپر طاقت سے ٹکر لینے اور 50 ارب ڈالر سے زیادہ کے سی پیک والے ملک کے نظم و نسق کی ذمہ داری سنبھالنے کی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے پاس کوئی قدآور شخصیت ہے جو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوسکے۔ کیا ان کے پاس کوئی وزیر خزانہ۔ وزیر خارجہ۔ وزیر تجارت۔ وزیر پیٹرولیم ہے۔ دینی مدارس کا اہتمام کرنے والے کیا ایک مملکت کے مہتمم ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے کسی نے ایسا منشور مرتّب کیا ہے۔ جس سے عوام جان سکیں کہ یہ آج کے فتنوں اور مسابقتوں سے بھرپور دور میں عالمگیر معاشرے میں وہ پاکستان کو کوئی مقام دلوا سکتی ہیں۔
ایک دلیل یہ بھی طاقتور حلقوں کی طرف سے آرہی ہے کہ ان جہادی تنظیموں کو مرکزی دھارے میں آنے دیں۔ انتخابات میں حصّہ لینے دیں۔ اس طرح یہ شدت پسندی کے دائرے سے باہر نکل آئیں گی۔
ویسے تو یہ دعوت طالبان کو بھی دی جاتی تھی کہ وہ ہتھیار پھینک کر مرکزی دھارے میں آئیں اور وہ جیسی مملکت چاہتے ہیں۔ انتخابات میں فتح حاصل کرکے ویسی مملکت بنا کر دکھائیں۔ اب بھی مرکزی دھارے میں جو بھی انہیں لانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ ان سے ہتھیار واپس لینے کے خواہشمند ہیں اور کیا یہ تنظیمیں یہ اعلان کریں گی کہ پہلے انہوں نے جو راستہ اختیار کیا وہ درست نہیں تھا۔ وہ اس کے ذریعے اپنے نظریات پر عوام کی تائید حاصل نہیں کرسکیں۔ اس لئے وہ اب مشاورت کے عمل سے مملکت میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
تاریخ آواز دے رہی ہے۔ جغرافیہ سرگوشیاں کررہا ہے۔ ایران افغانستان میں جو طوفانی لہریں اُٹھ رہی ہیں۔ وہ بھی بہت کچھ کہہ رہی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بھائی بہنیں مولانا طارق جمیل۔ ڈاکٹر نائیک کے پروگرام کتنے غور سے سنتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے جلسے ہوں۔ عمران خان کے یا زرداری صاحب کے ان کے سامعین کے چہروں پر یہ انہماک اور آنکھوں میں تجسّس نظر نہیں آتا۔
سوال یہی ہے کہ کیا مذہبی جماعتیں۔ جہادی تنظیمیں۔ ان کے رہنما اس تاریخی موقع کے لئے تیار ہیں۔ ان میں یہ اہلیت ہے یا وہ صرف پریشر گروپ بن کر ہی رہنا چاہتی ہیں۔ کیا وہ ایک ایسی اسلامی حکومت کا بھرپور خاکہ پیش کرسکتی ہیں جو اکیسویں صدی میں قابل عمل ہو۔

تازہ ترین