• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حب الوطنی، بغاوت، تھالی، چھید اور جذبات
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے:محب وطن شیخ مجیب کو باغی بنا دیا، اتنے زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں۔ عمران جس تھالی میں کھاتا اسی میں چھید کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو وہ جملہ تھالیاں تلاش کرنا ہوں گی جن میں خان صاحب نے چھید ڈالا ہے، پرانے زمانے میں پیتل کی تھالیوں میں کھاتے تھے ان میں آسانی سے چھید ڈالا جا سکتا تھا۔ آج زمانہ شیشے اور کراکری کا ہے جو ٹوٹ تو سکتی اس میں چھید ڈالنا ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود ممکن ہے چھید کرنے والے پیتل کی تھالی تلاش کر لیتے ہوں، یا سونے چاندی کی پلیٹ سے کام چلا لیں، بعض ڈسپوز ایبل تھالیاں بھی ہوتی ہیں عمران خان ممکن ہے کاغذی تھالیوں ہی کو ترجیح دیتے ہوں جن میں چھید کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کھائو اور پھینک دو، حب الوطنی کو ڈیفائن کرنے کے لئے ایک شعر میں معمولی سا تصرف کر کے کام چل سکتا ہے؎
بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز ’’حب الوطنی‘‘ ہوتی ہے
البتہ بغاوت تھوڑی ٹیڑھی کھیر ہوتی ہے، مگر زبردستی کھلا دی جائے تو حلق سے اتر بھی جاتی ہے، مگر مجیب الرحمٰن سرے سے باغی تھے ہی نہیں، انہوں نے کہا تھا میں اسلام آباد سے حکومت کرنے کے لئے تیار ہوں، مگر ڈی جیور پرائم منسٹرڈفیکٹو وزیراعظم نے کہا: اُدھر تم اِدھر ہم۔ اور اس للکار کے ساتھ پاکستان دو لخت ہو گیا تھا باقی رسومات ہمسایوں نے ادا کر دیں، تھالی اور چھید کے مسئلے کا حق ادا ہو چکا بس خزانے میں چھید کرنے کا ذکر ہم نے عمداً چھوڑ دیا کیوں کہ اس کا تو تلوا ہی نہیں چھید کا تذکرہ اور یوں بھی انشاء جی منع کر گئے ہیں کہ؎
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
جذبات کا جہاں تک تعلق ہے وہ اگر ہوں تو قابو کرنے کے طریقے بھی بتائے جا سکتے ہیں اور زخم کی تو بات پوچھنا ہے تو عوام سے پوچھو کہ جن کی حالت فیض نے بہت مختصر مگر جامع انداز میں با الفاظ دیگر بیان کر دیا تھا؎
نہ گنوائو ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا
٭٭٭٭
پی ٹی آئی اور پی ٹی گئی
چکوال ضمنی انتخاب:پی ٹی آئی کو شکست ن لیگ نے بھاری اکثریت سے نشست دوبارہ جیت لی۔ فرق صاف ظاہر ہے، یہ تو احوال ہے ایک ضمنی الیکشن، جنرل الیکشن فرق کہاں جا پہنچے گا، اس کے لئے چکوال میں عوام کے رجحان سے عبرت پکڑنا لازم ہے، یہ نہ ہو کہ پی ٹی آئی پی ٹی گئی ہو جائے خان صاحب کو رخصتی سے پہلے ہی اپنی روحانی ہستی سے دعا کرا لینی چاہئے کیونکہ نکاح کے بعد شاید وہ دعا دینے کے حق میں نہ ہو، بہرحال ایک بڑے سیٹ بیک کے بعد بھی ن لیگ کا ووٹ بینک جہاں جہاں ہے محفوظ ہے، اس لئے اب ن لیگ والے مُٹھ رکھیں اور قدم بڑھائیں سب انہی کے ساتھ ہیں، اگر وقت نے کوئی اور حسیں ستم نہ کیا تو ہوتا بقول غالب یہی ہے کہ؎
جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کا ہے
چکوال، چیک والو بن گیا اب آگے کی اپنی صورتحال چیک کر سکتی ہے، سیاست کے میدان میں بڑا پنڈال سجانا اوربات ہے، عوام کا ووٹ ڈالنے کا بڑا رجحان الگ حقیقت ہے اسی چکوال میں عمران خان نے کتنے ہی بڑے بڑے جلسے کئے مگر جب وقت رائے دہی آیا تو اتنا نمایاں فرق نظر آیا کہ دور تک کے مناظر واضح ہو گئے، ایم کیو ایم کے ایک راندہ درگاہ کو پی ٹی آئی میں شامل کر کے لاکھوں ووٹ گنوا دیئے کیا یہ سیاسی سوجھ بوجھ ہے؟ خان صاحب نے اپنی شادی کی خوشی کی بات کی ہے تو یہ نہایت اچھی بات اسی خوشی پر گزارہ کریں وزارت عظمیٰ کی خوشی کا خیال ترک کر دیں، جو بڑی سیاسی پارٹی 3بار اقتدار میں آئی کیا اس کی چھاپ نو آموز یونہی آسانی سے مٹا پائیں گے، اقبال کی اس نصیحت کو خان صاحب پلے باندھ لیں؎
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
اور ہاں یہ بھی سنتے جائیں کہ کسی میڈیا ہائوس کو اپنے مطابق کرنے کا خیال بھی دل سے نکال دیں کیونکہ میڈیا آزاد ہے اور ہر میڈیا ہائوس اپنی آزاد پالیسی رکھتا ہے۔
٭٭٭٭
کہیں تخت کہیں تختہ
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں:بلوچستان حکومت تخت رائیونڈ کے بجائے عوامی وفا دار ہو۔ پی پی نے اپنے ادوار میں عوام کی بہتری، خوشحالی اور روٹی، کپڑا اور مکان کے نعروں کو عملی جامہ پہنایا ہوتا تو آج اس کا سیاسی قامت اتنا مختصر نہ ہوا ہوتا۔ حیرانی ہے کہ ایک شخص رہنے کے لئے مکان بنائے اور دوسرا اسے تخت کہے بات بنتی نہیں، پاکستان میں کوئی بادشاہت نہیں، کوئی تخت نہیں، البتہ محلات ہیں، محلاتی سازشیں ہیں، جب تک ن لیگ، پی پی کے لئے کارآمد تھی مفاہمت جاری رہی، جونہی ن لیگ نے جمہوریت کی قبا چاک ہوتے دیکھی، ہاتھ کھینچ لیا، اس پر پی پی نے اینٹی ن لیگ مہم شروع کر دی، اگر بلاول ہائوس کو تخت کہا جائے تو کیا بلاول مان لیں گے؟ یوں سوچے سمجھے بغیر بات ہانک دینا سیاست نہیں سیاست بازی ہے، سیاست کرنا نہیں، پاکستان سیاسی بازیگری کے لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ آدھا ملک دائو پر لگا دیا اور آج اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا کہ ذمہ دار کون تھا، بلاول ابھی سیاست سیکھیں، اور اپنے اتالیق شاہ جی سرکار سے وہ گر بھی پوچھیں جو وہ انہیں نہیں بتاتے، رائیونڈ میں تبلیغی سینٹر بھی ہے، اس لئے اسے تخت کہیں گے تو پورا رائیونڈ زد میں آئے گا۔ تبلیغی حضرات بھی بُرا منائیں گے، کبھی تخت لاہور کبھی تخت رائیونڈ، دو بھائیوں کی رہائش گاہوں کو تخت سمجھنے والے سرے محل کیوں بھول جاتے ہیں۔ سوئس بینکوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے محل بھی باہر، دولت بھی باہر اور سیاست پاکستان میں، پی پی اپنے دور حکومت کو یاد کرے جب لوڈ شیڈنگ کے بجائے لوڈ فنشنگ ہوا کرتی تھی، اور لوگ بجلی کے لئے ترستے تھے۔ ن لیگ نے اگر وعدہ کیا تھا تو بالآخر بحران پر قابو پا ہی لیا، گیس کے بحران نے سر اٹھایا ہے تو وہ شاید خاقان عباسی کی جیب میں ہے، بلاول دیکھیں گے کہ جلد گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ختم ہو جائے گی، البتہ سوئی نادرن کو چاہئے کہ آبادیوں میں کمپریسر لگا کر گیس کھینچنے والوں اور فیکٹریوں کو چیک کرے۔
٭٭٭٭
روٹی نہیں ملتی، کیک کھا لیں
....Oسابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری: زبردستی چمٹے رہنا میرا شیوہ نہیں،
اس شیوے کو عام کریں اور ثواب دارین پائیں۔
....Oچکوال ضمنی انتخاب میں ن لیگ کی جیت پر مریم نواز نے کہا:عوامی عدالت نے اہل اور نا اہل کا فیصلہ کر دیا۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
....Oنواز شریف کے طرز ِتخاطب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت،
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
....Oبجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ جاری، شہری بلبلا اٹھے،
شہری شمسی توانائی سے استفادہ کیوں نہیں کرتے اور گیس غبارے بیچنے والوں سے کیوں حاصل نہیں کرتے۔
....Oگورنر پنجاب:جمہوریت کے لئے سیاسی عمل کا جاری رہنا ضروری ہے۔
یہ بات پہلی بار آپ ہی نے بتائی ہے، اب اس پر عمل بھی ہو گا۔

تازہ ترین