• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفی ہمیشہ محبت کی بات کرتا ہے۔ محبت خدمتِ خلق کی طرف لے جاتی ہے۔ میاں محمد بخشؒ صوفیاء کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی زندگیاں عمل اور جدو جہد سے عبارت ہیں اور بے عملی سے کوسوں دور ہیں۔ اس لئے ان کا پورا کلام جدوجہد کا پیغام اور عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ فقر تصوف کی روح ہے۔ قصّہ سیف الملوک و بدیع الجمال میں تصوف کی مختلف منازل مثلاً استغناء، حیرت اور فقر کا تذکرہ جامع انداز میں کیا گیا ہے اور ان کے معنی و مفہوم کو اسلامی فکر کے تناظر میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلوک کے راستے پر چلنے والوں کی زندگی میں ایک ایسا مقام ضرور آتا ہے جب کچھ دیر کے لئے شریعت کی پابندیاں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔ شریعت تن ہے اور طریقت من۔ شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن۔ تن من اور ظاہر باطن ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی شے کا ظاہر و باطن یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کسی ایک کو نظر انداز کرنے سے توازن بگڑ جاتا ہے ۔ میاں محمد بخشؒ کا تصوف شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام عمر ایک نقطے پر مرکوز رہی۔ ان کا تخلیق کردہ کردار ’’سیف الملوک‘‘ انہیں خانقاہی تصوف سے الگ کر کے ان صوفیاء کی صف میں لے آتا ہے جہاں تصوف مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ میاں محمد بخشؒ نے تمام عمر اپنی باطنی و ظاہری زندگی اسلام کے اصولوں کے مطابق بسر کی اور طریقت کے ساتھ ،شریعت کو بھی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔ شیخ یحییٰ منیری نے اپنے ایک مکتوب میں شریعت اور طریقت کے حوالے سے لکھا ہے:
’’طریقت کی راہ بھی اسی شریعت سے نکلی ہے۔ شریعت و طریقت میں جو فرق ہے اس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ تم اسی سے سمجھتے جائو۔ شریعت میں توحید، طہارت، نماز، روزہ، حج، جہاد، زکوٰۃ اور دوسرے احکام و شرائع اور معاملات ضروری کا بیان ہے۔ طریقت کہتی ہے کہ ان معاملات کی حقیقت دریافت کرو، ان مشروعات کی تہہ تک پہنچو۔ اعمال کوقلبی صفائی سے آراستہ کرو، اخلاق کو نفسانی کدورتوں سے پاک کرو، جیسے ریاکاری ہے، ہوائے نفسانی ہے، ظلم و جفا ہے، کفر و شرک ہے۔ اچھا اس طرح نہ سمجھو ہو، تو یوں سمجھو۔ ظاہری طہارت اور ظاہری تہذیب سے جس امر کو تعلق ہے وہ شریعت ہے۔ تزکیہ باطن اور تصفیہ قلب سے جس کو لگائو ہے وہ طریقت ہے۔ نماز میں قبلہ رو کھڑے ہونا شریعت ہے اور دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہونا طریقت ہے۔‘‘
تصوف اور عمل کی بات کریں تو میاں محمد بخشؒ کا ہر کردار عمل سے عبارت ہے مگر مردِ کامل شاہین کی طرح اپنا رزق کسی وسیلے کے بغیر اپنی سعی سے حاصل کرتا ہے اور اسے بہتر عمل جانتا ہے۔ اسے سردار یا بادشاہ بننے کی خواہش نہیں کیونکہ وہ تخت و تاج کو بوجھ سمجھتا ہے، خلقت کے ساتھ ظلم کوناپسند کرتا ہے اور نکما بیٹھ کر کھانے والے کو غیر معتبر، جبکہ ہر دم عمل پر آمادہ رہنے والے کو معتبر سمجھتا ہے۔ اسے خانقاہوں، پیری مریدی، عباداتِ ظاہری اور نذرانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ پوری کائنات اس کا گھر ہے اور وہ تسخیر ذات اور کائنات کا ایسا مسافر ہے جس کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔
میاں محمد بخشؒ کا مزاج فطرتاً درویشانہ تھا۔ اس پر انہیں مولوی عبداﷲ کی صحبت اور رہنمائی حاصل ہوئی جو ان کے لئے فقر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کے اقوال اور افعال نے میاں محمد بخشؒ کے دل پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ علاوہ ازیں مرشد کی محنت مزدوری اور رزق حلال کمانے کی عادت بھی ان کے لئے مشعلِ راہ تھی:
چکی پیسن کرن مزدوری کسب حلالوں کھاون
نام اللہ دے علم شریعت ہر اک کان پڑھاون
اقبال اس ضمن میں لکھتے ہیں:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
میاں محمد بخشؒ کے لئے تصوف صرف عبادات کا نام ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے تصوف کی تمام منازل عملی طور پر طے کی تھیں۔ ان کی زندگی فقر کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ انہوں نے اپنے دور کے راجاؤں مہاراجاؤں کی بجائے درویشوں، فقیروں اور عام خلقِ خدا سے رسم وراہ رکھی اور تصوف کو خانقاہ کی چار دیواری سے نکال کر پوری کائنات میں پھیلادیا۔ وہ مولانا روم کے نظریات و افکار سے شدید متاثرتھے اور انہیں اپنا مرشد سمجھتے تھے۔
انہوں نے محنت مزدوری سے رزق حلال کما کر ثابت کیا کہ ولی اور عالم ،عام مخلوق سے مختلف نہیں ہوتے۔ دین اور دنیا، دونوں کے تقاضے خدا کے حکم کے مطابق پورے کئےاور خدا سے محبت کیساتھ، انسان سے محبت کا سبق دیا۔ ان کے نزدیک حقیقی علم کا مقصد خدا شناسی اور احترام آدمیت ہے، وہی علم نافع ہے جو انسانی زندگی کیلئے فائدہ مند ہو اور خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھائے، چونکہ وہ فلسفہ وحدت الوجود کے قائل تھے، اس لئے مخلوق سے محبت ان کا ایمان بن گیا، انہوں نے بلا رنگ و نسل اور مذہب، پوری انسانیت سے محبت کا درس دیا۔ تصوف میں میاں محمد بخشؒ کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے تصوف کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر استوار کیا۔ علم اور عقل کو مرکزی اہمیت دی اور تصوف میں منفی رحجانات کو دور کرکے اس کی مثبت حیثیت کو اجاگر کیا، عشق الٰہی اور حُبِّ الٰہی کو عبادات کی اصل قراردیا۔ نفی ذات، جو بدھ مت کی تعلیمات تھی، کے مطابق عمل سے گریز کا درس دیا جاتا تھا، کو رد کیا۔ دنیا کو سایہ سمجھ کر بے عملی کی ترغیب نہیں دی بلکہ ہر لمحہ عمل پر اُکسایا۔ عموماً جب کبھی دنیا کی بے ثباتی کا ٰذکر ہوتا ہے تو یہی پرچار کیا جاتا ہے کہ فانی دنیا سے دل لگانا، کسی طور جائز نہیں ،اسے ایک سرائے سمجھ کر رہنا چاہئے۔ جس طرح مہمان خانے میں، مہمان کا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا اسے جیسی رہائش اور خوراک ملے وہ خوشی یا نا خوشی سے اسے قبول کرکے اپنا وقت گزار لیتا ہے کیونکہ اسے خبر ہے کہ یہ اس کی منزل نہیں لیکن دنیا کو مہمان خانہ سمجھنا اس حوالے سے جائز نہیں کہ انسان اشرف المخلوقات اور خدا کا نائب ہے اور اس کے ذمے بہت سے کام ہیں اور ذمہ دار انسان اپنے گردوپیش سے کسی طور لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ عقل اور تدبیر کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ کے کلام میں دنیا کی بے ثباتی کے ذکر کے ساتھ بھی عمل کی تلقین موجود ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انسان صرف اسی جہان کا نہ ہو کر رہ جائے بلکہ اسے یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ایک اور دنیا بھی اس کی منتظر ہے۔ صوفیاء دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ اس لئے بھی کرتے ہیں کہ انسان حرص‘ طمع اور دیگر نفسانی برائیوں کا شکار نہ ہو۔ وہ غرور و تکبر اور طاقت کے نشے میں چُور ہو کر کمزوروں پر ظلم نہ کرے کیوں کہ ایک دن اسے بھی کسی طاقت کے سامنے جواب دہ ہونا ہے لیکن بے ثباتی اور عمل کو خوبصورتی سے، ایک دوسرے سے منسلک کردیا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کی بجائے، زیادہ کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے کیونکہ وقت کم ہے اور یہ بھی علم نہیں کہ کب بلاوا آجائے:
کجھ وساہ نہ ساہ آئے دا مان کہیا فیر کرناں
جس جسّے نوں چھنڈ چھنڈ رکھیں خاک اندر ونج دھرناں
لوئی لوئی بھر لے کڑئیے جے تدھ بھانڈا بھرناں
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرناں
اقبال اس حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ کرتا ہے:
کھو نہ جا اس شام و سحر میں اے صاحبِ ہوش
اک جہان اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
میاں محمد بخش خدمت ِ خلق کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اگرچہ انہوں نے خود شادی نہیں کی، مگر اپنی تحریروں میں وہ کہیں بھی رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتے۔ ان کے فلسفہ عشق کی اساس خدا شناسی،خود شناسی، فروغِ علم، جدوجہد، بھرپور معاشرتی زندگی، اولوالعزمی، انسان دوستی،آزادی، امن، مساوات، عالمگیر وحدت اور عالمگیر اخوت پر ہے تاہم یہ تمام نکات ان کے فلسفہ عشق کے تشکیلی عناصر ہیں۔ میاں محمد بخشؒ، اقبال سے ربع صدی قبل ہوئے ہیں۔ انہیں اقبال کا پیش رو کہا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پنجابی شاعری میں یہ تصورات اردو زبان سے پہلے بیان ہوئے ہیں۔

تازہ ترین