• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین جہاں مجھ سے عموماً اپنے بچوں کے حوالے سے یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کن مضامین میں تعلیم حاصل کرناچاہیے یا انہیں کس فیلڈ کا انتخاب کرناچاہیے یا اچھا گریڈ لینے کے لئے انہیں کتنا پڑھناچاہیے اسکول یا کالج کے علاوہ گھر آکرانہیں کم ازکم کتنے گھنٹے پڑھائی کو دینا ضروری ہیں ۔بچوں کے لئے ہوم ٹیوشن یا اکیڈمی جاکر گریڈ کے لئے پڑھنا کتنا ضروری ہے۔اس حوالے سے میں سوشل میڈیا پر ای میلز کے جواب میں یا فون کالز پر انفرادی طور پر یا اجتماعی طورپر جواب دیتا رہتا ہوں ۔خاص طور پر وہ لوگ جن کی مالی پوزیشن بہتر ہوتی ہے ،وہ بچوں کودوسرے ممالک میں تعلیم دلوانے کے خواہشمند ہوتے ہیںاوراس حوالے سے وہ بہت زیادہ سوالات کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کے لئے یورپ،آسٹریلیا ،امریکہ، ملائیشیاء یا چین تعلیم کے لیے بہتر ہیں؟تعلیمی اخراجات کے لئے وظائف کا حصول کیسے ممکن ہے ؟انہیں بھی تواتر سے گائیڈ لائن دینے کی کوشش کرتا ہوں۔لیکن ان سارے سوالاتمسائل یامعلومات سے بڑھ کر بہت سارے والدین اپنے بچوںسے پیدا ہونے والی شکایات کا حل ڈھونڈنے کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس میں کئی مرتبہ خود والدین بھی قصوروار ہوتے ہیں اورکئی مرتبہ کچھ بچے جو نئی نئی جوانی کے جوش میں ہوتے ہیں ان کی طرف سے بھی مسائل ہوتے ہیں۔ایک ماں جن کا اکثر مجھ سے رابطہ رہتا ہے وہ کہتی ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بعد یو پی ایس خراب ہونا بھی بہت بڑی نعمت ہے ۔کیونکہ لائٹ جانے اور یو پی ایس کی خرابی کی وجہ سے مجھے احساس ہوا کہ میر ے بچے میرے پاس دوڑے چلے آتے ہیں کیونکہ اب ان کو جہاں اندھیرے میں خوف سا محسوس ہوتا ہے وہاں سوشل میڈیا سے رابطہ ختم ہونے پر بھی وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔بلکہ ایک مرتبہ اس حوالے سے کسی دوست نے ایک چٹکلہ بھی بھیجا ۔اور یہ چٹکلہ ان دنوں بھیجا جن دنوں زیر سمندرکیبل کی خرابی کی وجہ سے انٹرنیٹ خراب اوررابطے منقطع تھے۔ انہوںنے لکھا کہ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ روز گھروالوںسے ملاقات اور رابطے بحال ہوئے تو معلوم ہوا وہ بھی اچھے لوگ ہیں۔والدین جنہوںنے اپنے بچوں کو موبائل فون، ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ کی شکل میں ڈیوائسز تو لے دیں لیکن نہ ہی انہیں اس کے استعمال کے حوالے سے بچوں پر بہت ہی پابندیاں لگائیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا چیک رکھا جس سے اخلاقی حوالے سے ان بچوں اور والدین کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔اور جب انہوںنے مجھ سے رابطہ کیا تو بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا تھا۔لیکن ان حالات میں بھی وہ حکمت عملی کی بجائے جذباتی انداز میں اس کو حل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔گزشتہ روزنماز جمعہ کے دوران خطیب صاحب اپنے خطاب میں فرما رہے تھے کہ ان کے ایک جاننے والے صا حب کواپنی ایک بہو سے بہت گلہ ہے جبکہ دوسری کے وہ گن گاتے نظرآتے تھے۔انکا کہنا تھا کہ میری ایک بہو جو پڑھی لکھی ہے لیکن صبح اٹھتی ہے کچن میں جا کر اپنا اوراپنے خاوند کا ناشتہ تیارکرتی اور دوبارہ اپنے بیڈروم میں جا کراپنے خاوند کے ساتھ ناشتہ کرلیتی ہے جبکہ دوسری بہو صبح اٹھتی ہے سارے گھر والوں کے لئے نہ صرف ناشتہ تیار کرتی ہے بلکہ ان کے اٹھنے کا انتظار کرتی اور سب سے ملکر ناشتہ کرتی ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ انکے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے تو انہوںنے بتایا کہ جس بہو میں تھوڑی سی خود غرضی نظرآتی ہے اس نے تعلیم کے سلسلے میں زیادہ تر وقت ہوسٹل لائف میںگزارا ہے جبکہ دوسری بہو نے اپنی ماں کی نگرانی میںجہاں تعلیم حاصل کی ہے وہاں گھر میں رہ کر گھرانے اورجوائنٹ فیملی کی اقداربھی سیکھی ہیں یہ ایک اچھی مثال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے میں جتنے بھی بگاڑہیں ان کی ایک وجہ ساری نئی نسل کی درست تربیت نہ ہونااور ان کو اپنی روایات سے آگاہ نہ کرنا ہے ، بس ساری دوڑ،گریڈز،تعلیمی اداروں میں پوزیشنز اور بیرون ملک اچھے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم پر ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اورتعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہم جاہلوں کی طرح برتائو کرتے ہیں ۔میری والدین سے درخواست ہے کہ معاملات کو بہتر کرنے میں اپنا کردارادا کریں اور اگر کہیں خرابی پیدا ہوگئی ہے تو بچوں کے ساتھ نرمی اور حکمت عملی سے پیش آئیں نہ کہ غصے اورجذبات سے کام لے کر معاملات میں مزید بگاڑ پیدا کردیں کیونکہ نئی نسل ہی ہمارا پاکستان اور ہمارا مستقبل ہے۔

تازہ ترین