• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زینب کوانصاف دو،مسئلہ توڑپھوڑیاجلائو گھیرائو سےحل نہیں ہوگا،تجزیہ کار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کا شہر قصور آج بھی احتجاجی نعروں سے گونجتا رہا، صرف قصور ہی نہیں پوری قوم ہی ہم آواز ہو کر ایک ہی مطالبہ کررہی ہے، زینب کو انصاف دو، ملک بھر میں غم و غصہ اور دکھ ہے،اس غصہ کے اظہار کیلئے جس کو جو طریقہ سمجھ آرہا ہے وہ استعمال کررہا ہے اور احتجاج میں شدت آتی جارہی ہے، زینب کا کیس ہم سب کیلئے تکلیف دہ ہے، یہ واقعہ ہر اس شخص کیلئے گھناؤنا ہے جو دل رکھتا ہے ، جس کے اندر انسانیت ہے، لیکن مسئلہ توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ سے حل نہیں ہوگا،اس کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے یہ ممکن ہوسکے کہ آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں، آئندہ کسی ماں باپ کو زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے کی تشدد زدہ لاش نہ اٹھانی پڑی، ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ ملک بھر میں کسی بھی شہر ،گاؤں میں ایسے واقعات جنم ہی نہ لے سکیں،قصور میں احتجاج کے دوران آج مشتعل افراد نے سرکاری اسپتال میں گھسنے کی کوشش کی، مقامی ایم پی اے نعیم صفدر کے ڈیرے میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، پولیس نے ساٹھ سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ پروگرام میں سماجی کارکن و گلوکار شہزاد رائےنے کہا کہ بچوں کو نصاب کے ذریعے آگاہی دینی چاہئے۔ سماجی کارکن جبران ناصر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ہر صوبے میں ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں صوبائی کمیشن بنائیں جو پچھلے پانچ سال میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسوں کا جائزہ لے کر انہیں انصاف فراہم کرے۔ بچے غیرسیاسی ہوتے ہیں تو ان غیر سیا سی بچوں کیلئے اکٹھے ہو کر پالیسی بنائی جائے۔ آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی زیادہ تر جاننے والے لوگ ہی کرتے ہیں،ان معاملات کو دبانے کے بجائے بچوں کوآگاہی دینی چاہئے، اگر بچے ایسی کسی بات سے والدین کو آگاہ کریں تو انہیں اس پر عمل کرنا چاہئے،ایسے واقعات سے بچنے کیلئے معاشرے کی ذہنیت تبدیل کرنا ہوگی،جب تک بات گھر میں دبائی جائے گی معاشرے میں تبدیلی نہیں آئے گی،بچوں کا تحفظ والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ پروگرام میں شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ ملک بھر کی سیاسی قیادت قصور جاکر زینب کے والدین سے تعزیت کررہی ہے، صبح پانچ بجے وزیراعلیٰ شہباز شریف زینب کے گھر پہنچے اور ان کے والد کو قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی مگر اب تک قاتل گرفتار نہیں ہوئے، شہباز شریف نے فائرنگ سے جاں بحق دونوں افراد کے لواحقین کے لئے تیس تیس لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان بھی کیا ہے، یہ وہ کام ہے جو شہباز شریف اکثر کرتے ہیں، نوٹس لینا، کسی افسر کو او ایس ڈی بنادیا، اگر واقعہ میں کوئی جاں بحق ہوگیا ہے تو اسے لاکھوں روپے دیدینا مگر یہ واقعات دہرائے کیوں جاتے ہیں، ان کے تدارک کیلئے پنجاب حکومت کیا کرتی ہے، شہباز شریف نے اس کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو سرکاری خزانے سے تیس لاکھ روپے دیدیئے ، زینب کے والد پولیس تفتیش سے مطمئن نہیں ہیں البتہ انہیں انصاف ملنے کی امید ہے، انہوں نے پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کے سربراہ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا، تمام کیسوں کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا پولیس کی ذمہ داری ہے، اب تک قصور میں گزشتہ کیسوں کے ملزمان انجام تک کیوں نہیں پہنچے، اس کا جواب نہ شہباز شریف اور نہ ہی پنجاب پولیس دے رہی ہے، اگر ان ملزمان کو پکڑ لیاجاتا اور واقعات کی وجہ جان لی جاتی تو شاید زینب کا واقعہ نہ ہوتا، پنجاب حکومت مکمل طور پر خاموش ہے کہ اس نے گزشتہ واقعات کے بعد کیا کیا، پولیس کی رپورٹ کے مطابق قصور میں ہونے والے افسوسناک واقعات میں ایک ہی ملزم کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے، رپورٹ کے مطابق چار جنوری کو ایف آئی آر درج کرنے کے بعد پولیس افسران اور آٹھ ایس ایچ اوز نے پوری قوت کے ساتھ بچی کو ڈھونڈنے کیلئے سرچ آپریشن شروع کیا، آس پاس علاقوں سے سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی گئی، آخر میں وہ فوٹیج حاصل کی جس میں نامعلوم ملزم زینب کے ساتھ مضافاتی علاقے میں دیکھا گیا، سی سی ٹی وی فوٹیج کی کوالٹی خراب ہونے کے باعث ملزم کی شناخت نہ ہوسکی البتہ پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی سے فوٹیج کی کوالٹی بہتر بنانے کی درخواست کی جاچکی ہے، زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زیادتی کے شواہد ملے ہیں اور ڈی این اے کے نمونے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کو بھجوادیئے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق 67افراد کے ڈی این اے نمونے پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کوبھجوائے گئے ہیں، پولیس نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کروادی ہے، رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کوئی مجرم پکڑا گیا ہے ۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ آج چیف جسٹس نے بھی ایک کیس کی سماعت کے موقع پر کہا کہ زینب قوم کی بیٹی تھی،اس واقعہ سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس واقعہ پر مجھ سے زیادہ میری اہلیہ پریشان تھیں، اس واقعہ میں دکھ اور سوگ اپنی جگہ لیکن ہڑتال کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ افسوسناک واقعات کا سلسلہ ابھی رُکا نہیں ہے، آج ہی قصور سے ایک اور افسوسناک خبر سامنے آئی، قصور کی تحصیل پتوکی میں کھیتوں سے چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کی لاش ملی ہے جو تین دن پہلے اسکول جاتے ہوئے غائب ہوا تھا، جو لوگ ایسے جرائم کرتے ہیں انہیں گرفتار کرنا اور سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ آگاہی میں اضافہ کرنا ہوگا، اگر ان واقعات کو روکنا ہے تو جان بوجھ کر سمجھ کر خود کوا ٓگاہ کر کے جینا ہوگا،بچوں کو چار سال کی عمر سے ان کے جسمانی اعضاء کے حوالے سے آگاہ کیاجانا چاہئے، اپنے جسم کے متعلق تعلیم بچوں میں کسی معاملہ کو رپورٹ کرنے اور اس کی روک تھام میں مددگار ہوگی، پرائمری اسکول میں ایسی تعلیم عام تصاویر کے ذریعے بھی دی جاسکتی ہے، اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ ان تصاویر سے متعلق بچوں کو کیسے آگاہی دینی ہے ،عموماً اسکول اور گھر ایسے مقامات ہوتے ہیں جہاں بچوں سے زیادتی کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے زیادہ تر ان کے اپنے یا قریبی جاننے والے ہوتے ہیں، والدین ہوشیار ہوجائیں کسی پر اندھا اعتماد نہ کریں، یہ بالکل غلط تاثر ہے کہ جنسی زیادتی کرنے والا مجرم ہمیشہ کوئی اجنبی ہوتا ہے، سماجی ادارے آہنگ کے مطابق جنسی زیادتی کرنے والوں میں 47فیصد لوگ رشتہ دار ہوتے ہیں، 43فیصد افراد وہ ہوتے ہیں جوآپ کو جانتے ہیں لیکن قریبی نہیں ہوتے جبکہ 7فیصد لوگ اجنبی ہوتے ہیں،ایک اور سماجی ادارے ساحل کی 2017ء کے ابتدائی چھ ماہ کی رپورٹ کے مطابق زیادتی کا نشانہ بنانے والے 45فیصد لوگ جاننے والے تھے، 17فیصد واقف کار جبکہ صرف 15فیصد اجنبی تھی،زیادتی کا شکار ہونے والے 266بچے کسی اجنبی یا ویران جگہ پر نہیں بلکہ ایسی جگہ زیادتی کا نشانہ بنے جو ان کااپنا گھر ہے، 2017بچے اپنے جاننے والوں کے گھر پر زیادتی کا نشانہ بنے، 173بچوں کو کھیتوں میں زیادتی کانشانہ بنایا گیا،اسی طرح گلیوں میں 83، مدرسوں میں 14، اسکولوں میں 11، جرگوں میں 7اور مساجد میں 3بچوں کوزیادتی کانشانہ بنایا گیا، دونوں اداروں کی رپورٹ بتارہی ہے کہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے زیادہ ترا ن کے اپنے عزیز یا جاننے والے ہوتے ہیں اور بچے ان پر اعتماد کرلیتے ہیں، ایسے لوگ بچوں کو کبھی بہلا کر تو کبھی لالچ دے کر ساتھ لے جاتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں، یہ بات اگر بچے سمجھ لیں کہ اگر کوئی بھی ان کے ساتھ کچھ الگ برتاؤ کرے تو والدین کو فوراً بتانا ہے ، وہ کچھ بھی غلط محسوس کریں تو شور مچانا ہے، کون سی حرکت غیرمناسب ہے، کون سا رویہ خطرے کا اشارہ ہے یہ سب بچوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے، انہیں آگاہی دینے کی ضرورت ہے، اسی حوالے سے آج پریس کلب میں شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے پریس کانفرنس کی، انہوں نے نہ صرف واقعہ کی مذمت کی بلکہ آگاہی کے پروگرام پر بھی زور دیا،اس بات پر زور دیا کہ ایسی معلومات کو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا جائے، زندگی کے ہر شعبہ کے لوگ آواز بلند کررہے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ اب صرف ایسا نہ ہو کہ حادثہ ہو، شور اٹھے، مذمت کریں اور پھر خاموشی چھاجائے، آئندہ ایسا حادثہ نہ ہواس کیلئے وہ قدم اٹھانا ہے کہ بچے محفوظ رہیں اور والدین کی سادگی کسی بچے کی زندگی برباد ہونے کی وجہ نہ بنے، تمام ناظرین جو پروگرام دیکھ رہے ہیں وہ آنے والے دنوں کا نہ سوچیں بلکہ اسی وقت اور ابھی اپنے بچے سے بات کیجئے، یہ نہ سوچئے کہ آپ کے گھر کا ماحول ایسا نہیں ہے، آپ کا بچہ ایسا نہیں کہ وہ بتائے گا نہیں، ابھی اپنے بچے سے بات کیجئے اور پوچھئے کہیں کوئی اس کے حساس جگہوں پر ٹچ تو نہیں کرتا، کہیں کوئی ایسے لالچ تو نہیں دیتا، کوئی اسے اس طرح کہیں لے کر تونہیں جاتا، وہ اس کا کزن بھی ہوسکتا ہے، اس کا انکل بھی ہوسکتا ہے، ٹیچر بھی ہوسکتا ہے یا کوئی دوست بھی ہوسکتا ہے، اپنے بچے سے بات کریں اسے اعتماد دیں اور سمجھائیں کہ اگر ایسے ایسے ہوگا ، کوئی حساس اعضاء پر ہاتھ لگائے گا تو غلط ہوگا اسے سب سے پہلے آپ کوآکر اس بارے میں بتانا ہے۔پروگرام میں سماجی کارکن و گلوکار شہزاد رائےنے کہا کہ بچوں کو نصاب کے ذریعے آگاہی دینی چاہئے،میں نے نصاب میں بچوں کوآ ٓگاہی دینے کیلئے بات کی تو مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا،والدین اپنے بچوں سے پوچھیں،کیا کبھی کسی نے انہیں غلط طریقے سے چھوا یاوہ کبھی زیادتی کا شکار بنے ہیں،زینب جیسے واقعہ کے باوجود والدین اس بارے میں اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے ہچکچارہے ہیں،والدین اور بچوں کے درمیان یہ بیریئر توڑنا بہت ضروری ہے،یہ بیریئر ابھی تک امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک میں صحیح طور پر نہیں ٹوٹ سکا ہے،فن لینڈ، جرمنی اور آسٹریا وہ ممالک ہیں جنہوں نے اس کمیونیکیشن بیریئر کو توڑاہے، بچوں کے ساتھ 90فیصد زیادتیاں جاننے والے کرتے ہیں، صرف دس فیصد لوگ اجنبی ہوتے ہیں جنہیں ریاست روک سکتی ہے،قصور میں زیادتی کے واقعات کے ملزمان کو گرفتار نہ کرنا پولیس کی ناکامی ہے۔شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ حکومت قانون سازی کرے کہ کوئی استاد یا انکل یا کوئی اجنبی شخص بچے کو غلط طریقے سے نہ چھوئے،حکومت پولیسنگ ٹھیک کرے، بچوں کو بچانے کیلئے 90فیصد کام سول سوسائٹی،میڈیا اور والدین کا ہے جبکہ صرف دس فیصد کردار ریاست کا ہے،سندھ حکومت نے تین دفعہ نصاب تبدیل کر کے بچوں کی آگاہی کیلئے اسباق شامل کرنے کی کوشش کی لیکن تینوں دفعہ صوبائی حکومت کو میڈیا اور معاشرے کے کچھ حصوں نے مل کر ڈرایا جس پر وہ پیچھے ہٹ جاتی تھی لیکن اب ایسا ہونے والا ہے، بچوں کو نصاب میں آگاہی دینے کا سیکس ایجوکیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے،یہ تو بچوں کو جنسی استحصال سے بچنے کا طریقہ بتایا جارہا ہے،کچھ پرائیویٹ اسکولوں نے اپنے نصاب میں ایسے اسباق شامل کرنے کی کوشش کی تو انہیں والدین نے منع کردیا،حکومت ایسے معاملات سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کرے، مہم چلائے اور نظام انصاف کو درست کرے۔سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں پورا معاشرہ سہولت کار ہے،جب بھی کوئی بچوں کے جنسی استحصال پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم ان کمسن بچوں پر اپنی اخلاقیات، روایات، قدریں ، جھوٹی عزت ، انا اور غیرت کا بوجھ ڈال دیتے ہیں، یہ بوجھ ہم اپنے گھر کی عورتوں یا پھر بچوں کے مقدر میں ڈالتے ہیں، لوگوں کو پتا ہے کہ معاشرہ بچے کو نہیں سنے گا اسی لئے اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے،بچوں کے ساتھ زیادتی مدرسوں یا یونیورسٹی کی بحث نہیں ہے۔ جبران ناصر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان ہر صوبے میں ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں صوبائی کمیشن بنائیں جو پچھلے پانچ سال میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسوں کا جائزہ لے کر انہیں انصاف فراہم کرے۔جبران ناصر نے کہا کہ حکومت اپنی مشہوری کیلئے اشتہارات میں پیسہ لگانے کے بجائے عوام کو آگاہی دینے کیلئے بھی پیسہ خرچ کرے،حکومت نیوز میڈیا اور انٹرٹینمنٹ میڈیا کے ذریعہ آگاہی پھیلاسکتی ہے، والدین کو بھی تربیت دی جائے کہ بچوں کے ایسے سوالات کے جواب کیسے دینا ہیں،قصور میں بچیوں سے زیادتی کے بارہ واقعات دو کلومیٹر کے علاقے میں ہوئے، اس علاقے میں نہ صرف پولیس سورہی تھی بلکہ معاشرہ بھی خائف تھا۔جبران ناصر کا کہنا تھا کہ نواز شریف، عمران خان ، آصف زرداری اور سراج الحق سمیت دیگر سیاسی قیادت اپنی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی اور مارپیٹ کے واقعات کیخلاف اکٹھے ہوں، عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق ایشوز پر سیاسی مخالفین کو ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے، سیاسی جماعتیں عوام کی تعلیم اور آگاہی و شعور کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ دیں،بچے غیرسیاسی ہوتے ہیں تو ان غیرسیاسی بچوں کیلئے اکٹھے ہو کر پالیسی بنائی جائے۔آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار شرمین عبید چنائے نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی زیادہ تر جاننے والے لوگ ہی کرتے ہیں،ان معاملات کو دبانے کے بجائے بچوں کوآگاہی دینی چاہئے، اگر بچے ایسی کسی بات سے والدین کوا ٓگاہ کریں تو انہیں اس پر عمل کرنا چاہئے،بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملہ پر نصاب، ٹی وی شوز، ریڈیوکے ساتھ فزیکل ڈیمنسٹریشن بھی ہونی چاہئے،ایسے واقعات سے بچنے کیلئے معاشرے کی ذہنیت تبدیل کرنا ہوگی،جب تک بات گھر میں دبائی جائے گی معاشرے میں تبدیلی نہیں آئے گی،بچوں کا تحفظ والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہئے،بہت سے بچے اپنے استحصال کو چپ کر کے سہہ لیتے ہیں،صرف بچیوں ہی نہیں چھوٹے بچوں کا جنسی استحصال بھی بہت پھیل گیا ہے۔

تازہ ترین