• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مائی ڈیئرمیاں محمد نواز شریف صاحب!میں زندگی میں پہلی بار آپ سے یوں مخاطب ہو رہا ہوں کیونکہ آپ کے بیان سے مجھے تھوڑی سی حیرت اور صدمہ ہوا ہے۔ آپ سابق وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعظم ہیں لیکن سیاسی حکمرانی کے تخت پر متمکن ہونے سے پہلے آپ کبھی گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم بھی تھے ۔آپ ایف اے میں جس کلاس کے طالب علم تھے یہ محض اتفاق ہے کہ میں اس کلاس کو پڑھاتا تھا آج میں اسی رشتے کے حوالے سے آپ سے مخاطب ہوں کیونکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ سیاست دان سابق وزیر اعظم تو ہو سکتا ہے لیکن استاد اور شاگرد ایسے مقدس رشتے میں بندھ جاتے ہیں کہ وہ سابق نہیں ہوتے وقت ظالم ہے اور درمیان میں فاصلے حائل کر دیتا ہے انہی فاصلوں کے طفیل میری آپ سے گزشتہ تقریباً 25برس سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بعض باتیں سن کر مجھے اندیشے گھیر لیتے ہیں آپ کے مشیروں میں کچھ ایسے لوگ شامل ہیں جن کا تاریخ پاکستان کا مطالعہ نہایت سطحی ہے اور جو شدید ردعمل کے مریض ہیں یہی لوگ آپ کو مشورے دیتے اور گفتگو کے پوائنٹس (Talking Points)دیتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس مطالعے کا وقت ہے نہ ذوق وشوق۔
میاں صاحب یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مشکلات، تندی بادمخالف اور آزمائشیں ہی انسان کا امتحان ہوتی ہیں سیاست کے جان لیوا چیلنج، مقدمات اور جدوجہد ہی قائدانہ صلاحیتوں کا ٹیسٹ ہوتی ہے۔جولیڈر مخالفت کی سنگلاخ وادیوں سے صبروتحمل اور استقامت سے گزرجاتے ہیں وہ تاریخ میں عظیم مقام پاتے ہیں لیکن جو لیڈرز شدید ردعمل کا شکار ہو کر حوصلوں کے مجروح ہونے کا راز فاش کرتے ہیں وہ جلد تھک ہار کر ڈگمگانے لگتے ہیں ۔آپ پہلی بار ایک سخت ترین امتحان سے گزر رہے ہیں اس لئے آپ کے بیانات،گفتگو اور سیاسی مکالمے کارکنوں اور عوام کےلئے بلند حوصلگی ،بہادری اور عزم کے نمونے ہونے چاہئیں نہ کہ پریشانی، غم، دکھ اور گھبراہٹ کے عکاس۔ مجھے احساس ہے کہ آپ کو گہری چوٹ لگی ہے آپ نے زخم کھائے ہیں۔نازونعمت میں پلے اور آنکھ کھولتے ہی اقتدار اور حکمرانی کا عادی شخص سہل پسند اور نازک مزاج ہوتا ہے لیکن زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتی۔آپ ہمیشہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں اگر آپ خوداحتساب کے عمل سے اعتماد کےساتھ نہیں گزریں گے اور ہر الزام کا ثبوت دے کر سرخرو نہیں ہوں گے تو ملک سے کرپشن ختم کرنے کی آرزو کیسے پوری کریں گے۔اس لئے مقدمات کا سامنا بہادری سے کیجئے، ہر الزام کو غلط ثابت کیجئے تاکہ آپ قوم کےلئے رول ماڈل بن سکیں۔ آپ کے سیاسی رول ماڈل قائد اعظم ہیں جنہیں کانگریس اور برطانوی حکمرانوں کی مخالفت، منفی حربوں اور دل شکن مہموں کے سمندر سے گزرنا پڑا لیکن ان کے پایہ استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی اور نہ ہی کبھی گھبراہٹ کا تاثر ابھرا۔ آزمائش گزر جائے گی لیکن تاریخ کے صفحات پر آپ کی شخصیت کا ایک نقش چھوڑ جائے گی۔وہ نقش ایک بہادر اور صابر لیڈر کا ہونا چاہئے نہ کہ اس عام شہری کا جو مشکلات اور مصائب سے گھبرا کر قومی اداروں کو مطعون کرنا شروع کر دیتا ہے۔زیادتی برداشت کرنا صبر کی علامت ہے، صبر بہادری سے جنم لیتا ہے۔گھبراہٹ او ربے قابو خدمات کمزوری کی علامت ہیں اور کمزوری الزامات کے حوالے سے شکوک پیدا کرتی ہے دامن صاف ہو تو پھر غم کس بات کا، میں شاید آپ کو کبھی بھی خط لکھنے کی جسارت نہ کرتا لیکن آپ کا شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے سے بیان پڑھ کر صدمہ ہوا مجھے یقین ہے کہ یہ بات آپ کے ان مشیروں نے کان میں ڈالی ہو گی جو نہ قائداعظم کی عظمت کے قائل ہیں اور نہ ہی انہوں نے تاریخ پاکستان کا مطالعہ کیا ہے میں آپ کو عرصہ دراز سے جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ آپ پاکستان سے شدید محبت کرتے ہیں آپ میں خدمت کا جذبہ بھی موجزن ہے، مجھے وہ شامیں یاد ہیں جو ہم نے کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات پر غور کرتے گزار دیں، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے دل میں خوف خدا کا نور بھی موجود ہے۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ آپ کے درباریوں اور حواریوں نے آپ کو خوشامد اور چاپلوسی کا عادی بنا دیا ہے اور آپ تنقید کو دشمنی اور مخالفت سمجھنے لگے ہیں ۔مجھے یہ بھی اندازہ ہے کہ آپ کبھی پاکستان کی نظریاتی اساس میں یقین رکھتے تھے مگر اب آپ کے مشیروں نے آپ کی نظریاتی کمٹمنٹ میں نقب لگالی ہے ورنہ آپ ہندوستان کے ہندوئوں کو دیکھ کر کبھی نہ کہتے کہ ہم ایک جیسے ہیں ایک جیسا کھاتے اور ایک جیسا پہنتے ہیں پھر یہ لکیر درمیان میں کہاں سے آ گئی۔آپ کو یہ علم نہیں تھا کہ آپ معصومیت میں قائد اعظم کی لاتعداد تقریروں اور خاص طور پر قرارداد پاکستان کے موقعہ پر کی گئی تقریر کی نفی کر رہے ہیں اور دوقومی نظریے کی بنیاد میں شگاف ڈال رہے ہیں یہ لکیر نہ ہوتی تو آپ وزیر اعلیٰ بن سکتے نہ تین بار وزیر اعظم، دیکھ لیجئے ہندوستان میں مسلمانوں کو کس طرح ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پھر اللہ کا شکر ادا کیجئے جس نے اس قوم کو قائداعظم جیسا عظیم لیڈر اور پاکستان جیسا عظیم ملک عطا کیا۔
جناب میاں صاحب !میں جانتا ہوں کہ آپ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اسی لئے مجھے آج آپ کا یہ بیان پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور صدمہ بھی کہ شیخ مجیب الرحمن محب وطن تھا اسے باغی بنا دیا گیا۔اسی بیان میں آپ نے مجیب کا ذکر کرکے ملفوف دھمکی بھی دے دی ہے ’’کہ اتنے زخم نہ لگائو کہ جذبات قابو میں نہ رہیں‘‘ میاں صاحب یہ الفاظ آپ کو زیب نہیں دیتے مجیب کا مسئلہ اقتدار سے محرومی تھا جبکہ آپ کو اقتدار کی فراوانی نصیب رہی ہے ۔جس مجیب کو آپ محب وطن قرار دے رہے ہیں اس نے 16جنوری 1972کو معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے تسلیم کیا تھا کہ میں 1948سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کرتا رہا ہوں۔ اسی لئے تو اس کے سیاسی گروسہروردی نے کہا تھا کہ میں نے مجیب کو قابو کر رکھا ہے ۔ میری وفات کے بعد یہ باغی ہو جائے گا۔چند برس قبل مجیب کی صاحبزادی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اپنے یوم آزادی پر انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ جب وہ لندن میں اپنے باپ کے ساتھ ایک فلیٹ میں مقیم تھی تو وہاں ہندوستانی ’’ را‘‘ کے افسران آتے تھے اور آزادی کے منصوبے بنتے تھے۔اب تو ہندوستانی ’’را‘‘ کے ان افسران کی یادداشتیں بھی چھپ چکیں جو مجیب سے ملتے اور پیسے دیتے رہے اگر تلہ کیس بالکل صحیح تھا لیکن سیاسی طوفان کی نذر ہو گیا ۔چھ نکات بھی علیحدگی کا فارمولا تھا اگر مجیب برسراقتدار آکر چھ نکات (جنہیں وہ بنگالی عوام کی مقدس امانت کہتا تھا) کو عملی شکل دے دیتا تو ملک ویسے ہی ٹوٹ جاتا ۔ہندوستان سے مل کر قائداعظم کے پاکستان کوتوڑنے والے مجیب الرحمن کا اس انداز میں ذکر آپ جیسے قومی لیڈر کےلئے مناسب نہیں ۔اگر مجیب کی بغاوت کی ذمہ داری عدلیہ اور فوج پر ڈال کر ان اداروں کو مطعون کرنا مقصد تھا تو یہ بھی آپ کے لئے مناسب نہیں ۔
آپ جیسے بہادر محب وطن اور پاکستانیوں کی آرزوئوں کے امین لیڈر کو اقتدار سے محرومی اور جھٹکے کے ردعمل کے طور پر مجیب الرحمن کا علامتی ذکر ہرگز زیب نہیں دیتا ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو مشیرں کے شر سے محفوظ رکھیں اور استحکام پاکستان کی راہ پر چلائیں یہ آپ کے بہی خواہ Well Wisherاور اس سابق استاد کی پرخلوص دعا ہے جسے مشرف نے اس جرم کی پاداش میں چار سال اوایس ڈی بنا کر ر یٹائر کر دیا ۔الحمدللہ مجھے کوئی شکایت نہیں کیونکہ میں سزا و جزا کو من جانب اللہ سمجھتا ہوں آپ بھی یقین رکھیں کہ آزمائش اور عروج سب کچھ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اور صبر دنیا کی سب سے بڑی بہادری ہے یاد رکھیں کہ صبر سے آزمائش کا عرصہ گھٹتا ہے اور بے صبری سے بڑھتا ہے ۔

تازہ ترین