• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک امریکہ تعلقات میں دن بدن کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کی سیکورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک، پاکستان کی امداد بند کی گئی ہے، پاکستان، سعودیہ، چین سمیت 10ممالک کو واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ پاکستان کا نام پہلی فہرست میں شامل نہیں تھا بلکہ اسے بعد میں 22دسمبر کو شامل کیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے مشیر ایچ آر مک ماسٹرنے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو اپنی خارجہ پالیسی کے طورپر استعمال کررہا ہے اور اسلام آباد نے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رکھے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہے اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ کو یہ واضح طور پر کہہ دینا چاہئے کہ ہمیں امداد نہیں چاہئے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں امریکہ کے گھنائونے عزائم کے خلاف متحد ہو چکی ہیں، 33ارب ڈالر امداد کا امریکی دعویٰ بے بنیاد ہے، ہم امداد کے بغیر رہ سکتے ہیں تعلقات پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے صرف14ارب ڈالر دیئے تھے۔19ارب ڈالر واجب الادا ہیں۔ امریکی امداد کے بارے میں اصل حقائق پاکستانی قوم کے سامنے لائے جانے چاہئیں۔ امریکہ نے ڈرون حملہ کیا تو اس کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں نے ملک کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اب امریکہ کو اسی کی زبان میں جواب دینا ہوگا۔ پاکستانی قیادت نے ٹرمپ کے ٹویٹ کا بھرپور جواب دیا ہے۔ امریکہ کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکتی کہ پاکستان اپنے مفادات کو امریکی مفادات کے تابع کرے۔ ہمیں اس سازش کو سمجھنا چاہئے کہ امریکہ تنہا پاکستان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان پر وار کرے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں ان کے غیرذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ بیانات سے عالمی امن کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ٹویٹر سماجی رابطے کی اہم ویب سائٹ ہے۔ حکومتیں اور حکمراں ٹویٹر یا سوشل میڈیا کے ذریعے دوسرے ممالک سے مخاطب نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے سفارتی ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ نے ٹویٹر پر پاکستان کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے اور بے بنیاد الزامات اور دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان کا اس پر سخت ردعمل فطری ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ افغانستان ہے۔ چین، ترکی، ایران، روس سمیت بعض اسلامی ممالک افغان مسئلے پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں اور افغانستان کا پُرامن حل تلاش کرنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی خطے کے مفاد میں ہے مگر امریکہ اور بھارت کی سوچ اس حوالے سے مختلف ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دھمکانے والے سن لیں کہ کوئی طاقت پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ قومی سلامتی کے لئے پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دینا چاہئے۔ تمام ایئربیسز کو ہمہ وقت آپریشنل رہنے کے احکامات پاک فضائیہ نے دے دیئے ہیں۔ ایئرچیف مارشل سہیل امان کا کہنا ہے کہ پاک فضائیہ اپنی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کرے گی۔ امریکی جنگ میں شراکت داری پاکستانی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ پاکستان کو 16سال میں 120ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، چین کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم 16ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ واشنگٹن سے پاکستان کی تجارت 6ارب ڈالر تک محدود ہوگئی ہے۔ گزشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق کل براہ راست سرمایہ کاری میں چین کا 44فیصد حصہ تھا۔ یعنی1ارب 20کروڑ ڈالر جبکہ اس عرصے میں امریکہ نے صرف 2کروڑ 90لاکھ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی۔ امریکی سازشیں ناکام بنانے کے لئے اسلامی ممالک کا اتحاد ناگزیر ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے قتل عام کے باوجود دہشتگردی کا لزام بھی مسلمانوں پر ہی دھر دیا جاتا ہے۔ ٹرومین، آئزن ہاور اور کینیڈی امریکی صدر رہے مگر ٹرمپ جیسا متنازع اور منہ پھٹ صدر تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ امریکی مندوب نکی ہیلی کا تعلق انڈیا کی سکھ فیملی سے ہے۔ امریکہ میں جاکر اس نے اپنے نام کا کچھ حصہ بھی تبدیل کرلیا ہے۔ امریکہ میں بھارت اور اسرائیل کی لابی مضبوط ہے۔ امریکہ اس وقت کوئی ایڈوینچر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ وہ صرف خوف و ہراس پھیلا رہا ہے۔ شمالی کوریا کا معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ ٹرمپ نے پہلے شمالی کوریا کے خلاف سخت بیانات اور دھمکیاں دیں اور پھر یوٹرن لے لیا۔ اب بھی محض بیان بازی ہورہی ہے۔ ہمیں امریکی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی دھمکی پر حکومت، اپوزیشن اور پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بننا چاہئے۔ پوری قوم مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت نہ صرف امریکہ کے ساتھ فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ختم کرے بلکہ نیٹو سپلائی لائن بھی بند کی جائے۔ امریکہ کا گھناونا چہرہ اب کھل کر ہمارے سامنے آچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکیوں کا بھرپور انداز میں جواب دیا جانا چاہئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کشکول اٹھا کر قرض اور امداد لینے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ایسی پالیسیاں مرتب کی جائیں جن سے دنیا میں ملک و قوم کی عزت میں اضافہ اور وقار بلند ہو۔ عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا ہوگا۔ اتنی قربانیاں خود امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں نہیں دیں جتنی پاکستان کے عوام نے دی ہیں۔ پاکستان کسی بھی ملک کی ذیلی ریاست نہیں بلکہ ایک خود مختار ملک ہے۔ چند ڈالروں کے عوض حکمرانوں نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ملک و قوم کو نام نہاد امریکی جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ پاکستان کو امریکی دھمکیوں سے نمٹنے کے لئے داخلی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ ہم اندرونی مسائل کی وجہ سے کشمیر پر توجہ نہیں دے سکے اور پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر حصوں میں مداخلت کر رہا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن نے خود بیان دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارتی نیوی کے افسر اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہے۔ اس کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں اس کی بیوی اور والدہ پر تشدد کیا گیا۔ جوتے میں جو خفیہ چپ چھپائی گئی تھی اس سلسلے میں انہیں مار پیٹ کا نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے انسانی ہمدردی کے تحت کلبھوشن سے اس کے اہلخانہ کی ملاقات کا نتیجہ دیکھ لیا ہے کہ ہندوستان اس کے بارے میں الٹا عالمی سطح پر غلط پروپیگنڈہ کررہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے شکرگڑھ کی ورکنگ بائونڈری پر بلااشتعال فائرنگ ایک بار پھر کی گئی ہے، ظفروال سیکٹر میں ہندوستانی فوج کی پاکستانی علاقے پر اندھادھند فائرنگ اور شہری آبادی کو نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فورسز کے جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر مسلسل سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ ناکام بنانے کے لئے پاکستان کو چین، ایران، ترکی اور سعودی عرب کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ دشمن چاروں طرف سے حملہ آور ہے اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین