• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں اچانک جو سیاسی بحران پیدا ہوا ہے ، وہ ایک سیاسی کھیل میں کسی کی کامیابی کا شاخسانہ تو ہو سکتا ہے اور اسے جمہوری عمل کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن میرے خیال میں اس کے جمہوری اور سیاسی عمل پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ سیاسی اور جمہوری عمل پر بلوچستان کے عوام کا جو اعتماد بحال ہو رہا ہے ، وہ متزلزل ہو گا ۔ میرے ان خدشات کا سبب بلوچستان کے مخصوص حالات ہیں ۔ سردار ثناء اللہ زہری کی طرف سے وزارت اعلیٰ کا منصب چھوڑنے کے فیصلے اور نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے بھی یہ بحران ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا کیونکہ جن قوتوں نے یہ بحران پیدا کیا ہے ، ان کے مقاصد بلوچستان میں سیاسی استحکام سے حاصل نہیں ہوں گے ۔
جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں ، اس وقت بلوچستان میں نئے وزیر اعلیٰ کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جا رہے تھے ۔ ان سطور کی اشاعت تک بلوچستان کا وزیر اعلیٰ منتخب ہو چکا ہو گا لیکن خدشات اپنی جگہ موجود رہیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن حالات میں سابق وزیر اعلیٰ سردار ثناء اللہ خان زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی ، وہ حالات بہت ہی غیر معمولی اور حیرت انگیز ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سردار ثناء اللہ خان زہری بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان کی وجہ سے مستعفی نہیں ہوئے بلکہ اپنی ہی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی بغاوت کی وجہ سے انہیں وزارت اعلیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا ۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی بغاوت بھی اچانک سامنے آئی ۔ 2015 ء میں جب مسلم لیگ (ن) اپنے ہی اسپیکر بلوچستان اسمبلی آغا جان جمالی کے خلاف خود تحریک عدم اعتماد لائی تھی تو اس وقت مسلم لیگ (ن) کو اپنے ارکان پر مکمل کنٹرول حاصل تھا ، جو چند ماہ قبل اچانک ختم ہو گیا ۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن دن رات مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دفاع کرتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے بھی بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ ثناء اللہ خان زہری کو بچانے سے معذرت کر لی ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماؤں کے کچھ عرصہ قبل یہ بیانات شائع ہو رہے تھے کہ بلوچستان حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور جمعیت اس سازش کا حصہ نہیں بنے گی ۔ پھر کیا ہوا ؟ اس کا جواب مولانا فضل الرحمن خود دے سکتے ہیں ۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا بھی اپنی جماعت کے 8 ارکان بلوچستان اسمبلی پر کنٹرول نہیں رہا تھا ۔ تیسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ،وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے اتحادی میر حاصل بزنجو بھی یہی کہہ رہے تھے کہ وہ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ وہ بھی ثناء اللہ زہری کو بچانے میں بے بس نظر آئے ۔ چوتھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی سردار ثناء اللہ خان زہری کو استعفیٰ کا مشورہ دے دیا ۔ آخر ان سب رہنماؤں کا اپنے ارکان بلوچستان اسمبلی پر کنٹرول کیوںنہیں رہا ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے ، جس کا جواب حاصل کرکے بحران کے اسباب اور اس کی پس پردہ قوتوں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے ۔
سینیٹ کے مارچ میں ہونے والے انتخابات سے صرف تین ماہ پہلے اور موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے پانچ ماہ پہلے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی عمل میں لائی گئی ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات کی وجہ سے یہ بحران پیدا کیا گیا ہے ، ان کی بات میں وزن ہے کیونکہ موجودہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھی ۔ اب یہ پوزیشن متاثر ہو گی لیکن موجودہ بلوچستان اسمبلی برقرار رہی تو مسلم لیگ (ن) یہ کوشش ضرور کرے گی کہ وہ بلوچستان اسمبلی سے سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنے کا اپنا ہدف حاصل کرے ۔ اسے اس کوشش سے تبھی روکا جا سکتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی نہ رہے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان کا نیا وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے ۔ اس خدشے کا اظہار خود وہ ارکان بلوچستان اسمبلی کر رہے ہیں ، جو ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں پیش پیش تھے ۔ میر عاصم کرد گیلو بھی ان ارکان میں شامل ہیں ، جن کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ وہ 10 دن کے لئے وزیر اعلیٰ بلوچستان بن کر اپنا سیاسی کیریئر خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ نئے وزیر اعلیٰ بلوچستان کے انتخاب سے ہی پتہ چل جائے گا کہ بحران پیدا کرنے والی قوتوں کے عزائم کیا ہیں ۔
اس وقت بلوچستان اسمبلی میں جو ارکان بیٹھے ہیں ، انہیں پتہ ہے کہ بلوچستان میں انتخابات کس طرح ہوئے تھے اور وہ کس طرح منتخب ہوئے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ بلوچستان میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح انتہائی کم رہی ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے لوگوں نے یا تو کسی وجہ سے ووٹ نہیں ڈالے یا ان کا موجودہ سیاسی اور جمہوری عمل پر اعتماد نہیں ہے ۔ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال بھی بہت خراب ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان حالات میں بھی بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات تمام صوبوں سے پہلے کرا دیئے گئے ۔ اگرچہ یہ بات کہنی نہیں چاہئے مگر یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو سیاسی عمل سے نہیں ، سیاسی انتظام سے چلایا جا رہا ہے ۔ صرف بھرم قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا نہ کیا جاتا ۔بلوچستان کی حساس صورت حال کے پیش نظر اب اس بات کا خیال رکھا جانا ضروری ہے ۔ اگر ثناء اللہ زہری کی حکومت کا خاتمہ کرکے نئی حکومت قائم کر دی گئی ہے تو کوشش کی جائے کہ بلوچستان اسمبلی برقرار رہے ، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات انتہائی خراب ہونے کے باوجود ان کے کنٹرول میں ہیں تو انہیں اس صورت حال سے ضرور بچنا چاہئے کہ بلوچستان کے عوام کا سیاسی اور جمہوری عمل پر اعتماد ختم نہ ہو کیونکہ بلوچستان میں ماضی میں بھی سیاسی عدم استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ اعتماد متزلزل ہوا یا کچھ قوتوں نے بلوچستان کے عوام کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی ۔بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام صرف سیاسی کھیل نہیں بلکہ آگ کا کھیل ہے۔

تازہ ترین