• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور میں جس طرح بے گناہ اور معصوم زینب امین کا قتل ہوا اس پر پورا ملک ابھی تک سراپا احتجاج ہے ۔بلکہ بیرون ممالک پاکستانیوں کے دل بھی زخمی ہو چکے ہیں۔پچھلے چار / پانچ برسوں میں زیادتی کے بعد قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔آج سے چند برس قبل اگر حکومت نے کسی بھی زیادتی کے مجرم کو عبرتناک سزا دی ہوتی تو شاید اس قسم کے واقعات کا سلسلہ رک جاتا یا ان میں اضافہ نہ ہوتا۔اگر ہم حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ زیادتی کے کیسوں میں اضافہ بڑے شہروں میں نہیں بلکہ چھوٹے شہروں میں بھی ہو رہا ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے قصور میں اس قسم کے واقعات زیادہ ہو رہے ہیں۔اس سے قبل بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بنائی گئیں اس وقت بھی کہا کہ مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے گی ؟پھر مغلپورہ کی سمبل کےکیس میں کہا کہ اصل مجرموں تک پہنچ کر رہیں گے مگر کچھ پتہ نہ چلااس سے قبل بھی قصور میں بارہ بے گناہ اور ننھی پریوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔آج تک جتنے مجرموں نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی کیا ان کو نشان عبرت بنایا گیا؟حکومت بتائے کہ اب تک کتنے مجرموں کو عبرتناک سزا ملی ؟ہر زیادتی کے واقعہ کے چند روز تک میڈیا پر کافی شور مچایا جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔مریم نواز نے ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ ’’بچی سے زیادتی کے ملزم کٹہرے میں لائے جائیں ملزموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے ‘‘ اب کوئی مریم نواز سے یہ تو پوچھے کہ کیا ہمارے قانون میں واقعی کوئی ایسی سزا ہے ؟جس کو آپ عبرتناک کہہ سکیں اب تک ایسے زیادتی کے مجرموں کو کیابھوکے شیروں کے آگے ڈالا گیا؟ یا ہاتھی کے پائوں تلے کچلا گیا؟کتنے مجرموںکے جسموں میں زہرآلود نیزے چبوئے گئے؟
آرمی چیف نے کہا کہ مجرموں کو عبرناک سزا دی جائے مگر حضور والا اس ملک میں عدالتی نظام اور قانون کمزور ہے۔ہر جرم گواہ مانگتا ہے ارے بابا اتنے بڑے واقعہ پر بھی وکیل صفائی اور گواہان کے بیانات کی ضرورت ہے؟ذرا دیر کو تو سوچو کہ زینب کے و الدین کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی ؟ہمارے پولیس کا نظام آج بھی روایتی ہے ۔تھانہ کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قصور میں اس سے قبل ننھی بچیوں اور بچوں کے ساتھ پچھلے چند ماہ سے زیادتی کے مسلسل واقعات ہو رہے تھے تو پھر کیوں نہیں خادم اعلیٰ نے ان کے خلاف ایکشن لیا۔میاں صاحب صرف معطل کرنے سے، تبادلے کرنے سے اور کچھ عرصہ کے لئے کسی پولیس آفیسر کو حراست میں رکھنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ دوباتیں واضح ہیں کوئی جرم پولیس کی سپورٹ کے بغیر نہیں ہوتا یا پھر ہماری پولیس اس قدر بے خبر ہے کہ اسے اپنے علاقے میں موجود مشکوک اور جرائم پیشہ افراد کا پتہ نہیں۔ یا پھر پولیس خودچشم پوشی سے کام لیتی ہے یا پھر پولیس کی ایسی تربیت نہیں کہ وہ جرائم پر قابو پا سکے پھر پولیس پر اربوں خرچ کرنے کی کیا ضرورت؟ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں صرف ایک سال میں 17فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور اس وقت پورے ملک میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کے واقعات ہو رہے ہیں ۔کچھ واقعات منظر عام پر آ جاتے ہیں اور کچھ پر لوگ پولیس کے روایتی سلوک اور معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے خاموش ہو جاتے ہیں ۔2010ء میں سو بچے زیادتی کے بعد قتل کر دیئے گئے پولیس کے پاس 76فیصد کیسز دیہات اور 24فیصد کیسز شہری علاقوں سے آتے ہیں ۔مختلف اخباری رپورٹوں کے مطابق صرف قصور میں ایک ماہ کے دوران 12بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی مگر انتظامیہ اور پولیس نے ان واقعات کو چھپائے رکھا یا پھر ان واقعات پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔
کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں اور بچیوں کو کبھی خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ کس طرح معاشرے کے بدکردار لوگوں سے بچ سکتے ہیں کیا انہیں ایسی تعلیم دی گئی کہ وہ اپنے آپ کو ایسے مکروہ لوگوں سے بچاسکیں۔
کیا لوگ کراچی کی طوبیٰ اور فیصل آباد (لائل پور) کے عمران کے واقعات کو بھول گئے ارے حکمرانوں ڈینگی پریڈ تعلیمی اداروں میں شروع کرنے والو آج معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس برائی کے بارے میں بات کی جائے ۔ اس بگاڑ کا ذمہ دار میڈیا، انٹرنیٹ اور موبائل فون اور ہماری سول سوسائٹی بھی ہے ۔زینب کا ابھی معاملہ چل رہا ہے تو دوسری طرف فیصل آباد کے ڈجکوٹ کے 6بہنوں کے اکلوتے بھائی کو بدفعلی کے بعد قتل کر دیا گیا ۔شیخوپورہ کی ملیحہ شرافت کی لاش بھی چھ روز بعد ملی ۔2017ء میں 1764زیادتی کے واقعات ہوئے 850بچوں اور 1277بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی۔ ابھی بھلوال اور پتوکی میں ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی لاش ملی ہے جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔راولپنڈی اور کوئٹہ سے بھی بچیاں لاپتہ ہو چکی ہیں یہ کون سی لہر اس ملک میں چل پڑی ہے ۔علماء کرام کو اس پر دھرنے اور بات کرنی چاہئے ۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بچوں کے اغوا ان کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل میں صوبہ پنجاب پہلے نمبر، سندھ دوسرے نمبر، خیبر پختونخوا تیسرے نمبر اور بلوچستان چوتھے نمبر پر ہے ۔دوسری جانب پولیس کا یہ دعویٰ ہے کہ کرائم کم ہوئے ہیں ۔ صوبہ پنجاب میں بچوں کے اغوا ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کی وارداتوں میں قصور پہلے نمبر، سرگودھا دوسرے نمبر، لاہور تیسرے نمبر ،شیخوپورہ چوتھے نمبر، رحیم یار خاں پانچویں نمبر اور فیصل آباد چھٹے نمبر پرہے۔
زینب امین کے والد حاجی امین انصاری نے بالکل درست کہا کہ ہم حکمرانوں کے نزدیک کیڑے مکوڑے ہیں دونوں میاں بیوی عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے وہاں سے سیدھے اس اندوہناک واقعہ کے بعد پہنچے۔
آج سے چند برس قبل اگر پولیس سو بچوں کے قاتل جاوید اقبال کو پراسرار طریقے سے مارنے/خود کشی کا ڈرامہ نہ رچاتی اور اس کو عبرت ناک سزا ملتی تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی ۔
انتہائی دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے پاکستان میں ہر روز گیارہ بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں ۔قصور کے واقعہ پر احتجاج پر تین افراد پولیس کی گولیوں سے مر گئے جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے آئی جی پنجاب جو درد دل رکھتے ہیں اس واقعہ پر پولیس والوںکو سخت ترین سزا دلوائیں۔ پاکستان میں غربت کے باعث لاکھوں گھروں میں غریب لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو نوکر رکھوا دیتے ہیں ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر وہ غریب لوگ کچھ نہیں کرسکتے اس ملک میں ہزاروں ایسے کیس ہیں جہاں پر دبائو ڈال کر اور پیسہ دیکر ان کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا۔ قصور میں تین سو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی وڈیو بنانے والے مجرم کو سزا ہوئی؟سرگودھا میں بچوں کی نازیبا وڈیو بنانے والے کو سزا ہوئی ؟کئی برس قبل فیصل آباد میں نرسوں کی غیر اخلاقی فلمیں بنانے والوں کو سزا ہوئی ؟سوات میںایسی فلمیں بنانے والے کو سزا ہوئی؟یہ فلمیں بیرون ممالک فروخت کی گئیں اور لاکھوں روپے کمائے گئے ۔
قصور میں بچوں کی نازیبا فلمیں بنانے میں 25افراد ملزم نامزد ہوئے صرف دو کو سزا ہوئی باقی رہا ہو گئے اس میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب زینب امین کا ملزم پکڑا جائے گا تو کیا اس کو بھی روایتی انداز میں عدالتی نظام میں لایا جائے گا کیس چلے گا، ضمانت ہو گی یا سزا ہوگی اور اگر سزا ہو گئی تو وہ کیسے عبرت ناک سزا بنے گی؟آج ہر سیاسی جماعت کا عہدیدار اور حکومتی عہدیدار بار بار عبرتناک سزا کا ذکر کر رہا ہے اس عبرتناک سزا کے بارے میں بھی بتایا جائے کہ وہ کیسی ہوگی؟
بقول ساحر لدھیانوی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے.

تازہ ترین