• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قدرت کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت دودھ ہے جو مکمل صحت بخش غذا ہے، مگر ہمیں قدرت کی یہ نعمت بھی خالص میسر نہیں ہے۔ ایک طرف دودھ بڑھانے کیلئے بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں کی وجہ سے کھلا دودھ بیماریوں کا باعث بن رہا ہے تو دو سری طرف ڈبے کے دودھ میں یوریا اور دیگر غیر معیاری اشیاء کی موجودگی بھی تشویشناک ہے۔ گزشتہ دنوں دودھ کی مدتِ استعمال بڑھانے کیلئے اِس میں فارمالین کی ملاوٹ کا انکشاف بھی ہوا تھا۔ اِس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبے کے ناقص دودھ کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ ڈبوں میں فروخت ہونے والا دودھ محض فراڈ ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ڈبے کے دودھ پر ’’یہ دودھ کا نعم البدل نہیں ‘‘ تحریر کرنے کا حکم بھی جلد جاری کریں گے۔ اُنہوں نے حکم دیا کہ کراچی کے بازاروں سے ڈبے کے دودھ کے نمونے لئے جائیں اور اِنہیں ٹیسٹ کیلئے بھیجا جائے اور ٹیسٹ رپورٹ جلد از جلد منگوائی جائے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے سندھ حکومت کو جلد از جلد ایک فوڈ اتھارٹی بھی وجود میں لانے کا پابند بنایا ہے۔دودھ میں ملاوٹ کا یہ مسئلہ محض سندھ تک محدود نہیں۔ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی ملاوٹی دودھ کا کارروبار عروج پر ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں 16مختلف کمپنیوں کے ڈبے کے دودھ کے ٹیسٹ کروائے گئے تھے جن میں صرف 6کمپنیوں کا دودھ قابل استعمال قرار پایا تھا۔پنجاب میں فوڈ اتھارٹی نے نہ صرف دودھ بلکہ باقی ڈیری پروڈکٹس اور دیگر اشیائے خورونوش کو معیاری بنانے کیلئے انتھک محنت کی ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں صورت حال بہتری کی طرف آ رہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا ڈبے کے دودھ پر پاپندی کا یہ اقدام لائق تحسین ہے ، مگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ دیگر صوبوں میں بھی ہنگامی بنیادوں پر فوڈ اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنایا جائے تاکہ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک میسر آ سکے اور وہ موذی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

تازہ ترین