• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ فیڈریشن آف قونصلز کے ڈائریکٹر، قونصلر کارپس سندھ کے صدر اور کراچی میں یمن کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے ایمبسیڈر بیری گوسی نے گزشتہ دنوں مجھے ’’16 ویں گوسی پیس پرائز‘‘ ایوارڈ تقریب میں شرکت کیلئے منیلا مدعو کیا۔ ایوارڈ کی تقریب فلپائن کے شہر منیلا میں منعقد ہوئی جس میں عالمی لیڈرز، سفارتکار اورمعزز شخصیات نے حصہ لیا۔ گوسی پیس پرائز ایوارڈ، گوسی فائونڈیشن کا شہرت یافتہ اعلیٰ ترین ایوارڈ ہے جسے ایشیاء میں نوبل پیس پرائز کا ہم پلہ کہا جاتا ہے اور یہ دنیا میں امن کے فروغ، تعلیم، سائنس، تحقیق، طب، صحافت، سفارتکاری، خدمت خلق کے شعبوں میں دیا جاتا ہے۔ اس سال بھی دنیا بھرسے 12 معروف شخصیات جن کا تعلق آسٹریلیا، برازیل، چین، سعودی عرب، مصر، یونان، برطانیہ، امریکہ، جمیکا، فلپائن، بھارت اور بنگلہ دیش سے میڈیسن، سرجری، سائنس، تحقیق، تعلیم و صحت، جرنلزم اور سماجی خدمات کے شعبوں سے تھا، کو ’’گوسی پیس ایوارڈ2017ء‘‘ دیا گیا جن کا انتخاب گوسی پیس پرائز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پوری دنیا کے معروف اداروں کی جانب سے بھیجی جانی والی نامزدگیوں میں سے کیا۔ ایوارڈ کی تقریب فلپائن کنونشن سینٹر میں منعقد ہوئی جس میں 5 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ تقریب میں فلپائن میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر امان راشد اور پاک فلپائن بزنس کونسل کے صدر محمد اسلم اور میں نے پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ امریکی ریاست جارجیا کے سینیٹر ایمونیول ڈی جونز، ورلڈ فیڈریشن کے صدر اکوت ایکن، گوسی فائونڈیشن کے صدر اور مکائو یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر مان سونگ فاک، گوسی پیس پرائز کے چیئرمین ایمبسیڈر بیری گوسی، بیرون ملک سے آئے ہوئے مندوبین، غیر ملکی سفیروں، وزرا، سینیٹرز، بینکوں کے صدور، اعلیٰ شخصیات اور ملکی و غیر ملکی میڈیا نمائندوں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ ایوارڈ یافتہ شخصیات کو ایوارڈ دینے کیلئے مجھے اور سفیر پاکستان کو اسٹیج پر مدعو کیاگیا۔
میں بزنس کے سلسلے میں فلپائن کا کئی بار دورہ کرچکا ہوں لیکن 8سال بعد مجھے منیلا کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا اور میں اس شہر کی ترقی کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ میرے دوست پاک فلپائن بزنس کونسل کے صدر محمد اسلم جو گزشتہ 35 سال سے فلپائن میں مقیم اور ٹیکسٹائل بزنس سے منسلک ہیں، سے فلپائن اور منیلا کی ترقی کے بارے میں جو معلومات حاصل ہوئیں، وہ آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ فلپائن کی موجودہ ترقی کا سہرا موجودہ صدر روڈریگو دوتیرتےکے سر جاتا ہے جن کے کرپشن اور منشیات کے خلاف سخت اقدامات کے باعث گزشتہ چند سالوں میں فلپائن نے حیرت انگیز معاشی ترقی کی ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2050ء تک فلپائن دنیا کی 16 ویں بڑی اور ایشیا کی پانچویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال فلپائن کی مجموعی ایکسپورٹ 35 ارب ڈالر تھی جو پاکستان کی ایکسپورٹ سے زیادہ ہے جبکہ فلپائن کا شمار بھارت اور چین کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنیوالے ممالک میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ سال بیرون ملک مقیم 12 ملین سے زائد فلپائنی باشندوں نے 25ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر اپنے وطن بھیجیں۔ اسی طرح فلپائن کا شمار کال سینٹر سروسز فراہم کرنے والے سرفہرست ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں اس شعبے سے تقریباً ایک ملین افراد وابستہ ہیں۔ گزشتہ سال کال سینٹرز سے فلپائن کو 21 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی تھی اور آئندہ چند سالوں میں توقع کی جارہی ہے کہ کال سینٹرز سے آمدنی، ترسیلات زر سے تجاوز کرجائے گی۔ اس کے علاوہ فلپائن کو رواں مالی سال سیاحت سے بھی 4 ارب ڈالر سے زائد آمدنی ہوئی۔
فلپائن کے صدر دوتیرتے منشیات اور کرپشن کے خلاف سخت اقدامات کے باعث عوام کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں، وہ اپنی سادگی اور جارحانہ انداز گفتگو کی وجہ سے آئے دن عالمی میڈیا کی خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ دوتیرتے پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے سے قبل وہ 20 سال تک فلپائن کے شہر دوائو کے میئر تھے۔ دوائو کا شمار ایشیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ دوتیرتے دوائو شہر کے ایک سخت گیر میئر کے طور پر جانے جاتے تھے جنہوں نے شہر میں منشیات اور جرائم کے خلاف مہم چلائی تھی جس کے باعث دوائو کو چند ہی سالوں میں ایشیاء کا محفوظ ترین اور منشیات و جرائم سے پاک شہر شمار کیا جانے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے دوتیرتے کو گزشتہ سال ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھاری اکثریت سے منتخب کیا۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے پورے ملک میں منشیات اور کرپشن کے خلاف کریک ڈائون کیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد مارے گئے۔ دوتیرے کے ان اقدامات کے باعث امریکہ اور یورپ نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا لیکن دوتیرتے نے مغربی ممالک کی کی تنقید پر کان نہیں دھرا۔ واضح رہے کہ فلپائن میں تقریباً 4 ملین سے زائد افراد منشیات فروشی کے گھنائونے دھندے سے وابستہ ہیں جن میں سے 7 ہزار سے زائد منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد کو ہلاک کیا جاچکا ہے جس کے باعث ملک میں جرائم کی شرح میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
فلپائن کی مجموعی 100 ملین آبادی کا تقریباً 10 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ فلپائنی صوبہ مندانائو میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ فلپائنی صدر دوتیرتے اپنے دل میں مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ جب مسلم اکثریتی صوبے مندانائو کے شہر دوائو کے میئر تھے تو انہوں نے مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے مثبت اقدامات کئے۔ شاید بہت کم لوگ یہ حقیقت جانتے ہوں کہ فلپائن کے موجودہ صدر دوتیرتے کی نانی مسلمان تھیں جبکہ ان کی بہو اور پوتے پوتیاں بھی مسلمان ہیں۔ دوتیرتے اکثر اپنی تقریروں میں اس بات کا اعتراف کرتے آئے ہیں کہ گزشتہ ادوار حکومت میں مسلمانوں کا استحصال کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے فلپائن کی نصابی کتابوں میںاسلامی تاریخ کو بھی شامل کرنے کے احکامات جاری کئے۔ حالیہ نصابی کتابوں میں فلپائن کی تاریخ اسپین کی حکمرانی سے شروع ہوتی ہے جب منیلا اور فلپائن کے جنوبی علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ فلپائن کی شرح خواندگی 95 فیصد ہے اور یہاں کا معیار تعلیم بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے جو یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں انتہائی سستا ہے۔ 1995تک ویزے کی پابندی نہ ہونے کے سبب بڑی تعداد میں پاکستانی طلباتعلیم کے حصول کیلئے فلپائن کا رخ کرتے تھے مگر بعد میں حکومت پاکستان کی درخواست پر پاکستانیوں کیلئے فلپائنی ویزے کی پابندی عائد کردی گئی۔
کچھ دہائی قبل تک معاشی اعتبار سے پاکستان کی معیشت فلپائن سے کئی درجے بہتر تھی مگر آج فلپائن ہم سے کئی گنا آگے نکل چکا ہے ۔ پاکستان میں منشیات کا استعمال اور بڑھتے ہوئے جرائم وبا کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پاکستان، فلپائن سے سبق حاصل کرتے ہوئے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد سے اسی طرح آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ فلپائن کے 85 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر 4 ذرائع سے حاصل کئے جاتے ہیں جن میں پہلے نمبر پر ایکسپورٹس (35 ارب ڈالر) ، دوسرے نمبر پر ترسیلات زر (25 ارب ڈالر)، تیسرے نمبر پر کال سینٹرز (21 ارب ڈالر) اور چوتھے نمبر پر سیاحت (4ارب ڈالر)شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار میں بیرونی سرمایہ کاری شامل نہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں منیلا کے وسط میں بونی فیسیو گلوبل سٹی (BGC) کا ماڈرن شہر قائم کیا گیا ہے جس کی بلند و بالا عمارتیں، شاپنگ مالز اور جدید انفرااسٹرکچر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میرا قیام اسی علاقے میں ایک ہوٹل میں تھا جس کے آس پاس جدید عمارتوں میں قائم کال سینٹرز میں دن رات نوجوان لڑکے لڑکیاں شفٹوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فلپائن کی طرح کال سینٹرز انڈسٹری کو فروغ دینے کا پوٹینشل موجود ہے جس سے نہ صرف تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کو ملازمت کے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ ملک کو کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ میں نے اپنے کالموں میں ہمیشہ اس اعادہ کیا ہے کہ دور اندیش، مخلص اور جرات مند لیڈرز ہی قوم کی قسمتیں بدلتے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی لیڈر کی ضرور ت ہے جو ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔

تازہ ترین