• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک اور معاشرے کی ساکھ اس کی اعلیٰ روایات، قانون کی حکمرانی اور برائی سمیت ہر قسم کے ظلم و ستم اور اخلاقی زیادتیوں کا سدباب ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں مالیاتی جرائم سے زیادہ سنگین مسئلہ اخلاقی روایات اور طرز زندگی کا ہوتا ہے۔ اس سے ان ممالک کی شہرت اور نیک نامی پہچانی جاتی ہے، پاکستان اور بھارت سمیت اخلاقی روایات کا جنازہ بھی نکل جائے تو اس کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ اس کے باوجود اچھی گورننس کے بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال قصور میں سات سالہ بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اس کی بے رحمانہ موت ہے۔
یہ واقعہ پہلا نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان یا پشاور ہر جگہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر طاقتور وڈیرے یا بااثر افراد کے اثر و رسوخ کے آگے کمزور لوگ اور خاندان سسک سسک کر مرجاتے ہیں اور گھر کی تباہی کو برداشت کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ اب قصور کا حالیہ واقعہ عملاً ہمارے معاشرے اور حکومت دونوں کے منہ پر طمانچہ ہے لیکن ہم اس کے باوجود اس سانحہ میں بھی نمبر بنانے اور طرح طرح کے دعوے کرنے میں مصروف ہیں، حالانکہ حکمرانوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کہ جس صوبے کو وفاق سے سب سے زیادہ فنڈز ملیں اور پولیس یا امن و امان کے نام پر بے پناہ وسائل کا استعمال ہو، وہاں لاء گورننس کا یہ حال ہو، اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے کہ جب حکمرانوں اور سیاسی قائدین کی ترجیح یہ ہو کہ بیان بازی سے لوگوں کا پیٹ بھرنا ہے، وہاں عوام کے جان و مال کے تحفظ کا مسئلہ زیر زمین چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے معاشرے میں ایسے واقعات کا ہونا معمول بن چکا ہے جس میں 90فیصد کیس کئی وجوہ کی بنا پر’’پبلک‘‘ نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو ان پر ایکشن زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
اس لئے حکومت اور سول سوسائٹی کے لئے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ ملک میں گورننس کا مسئلہ حل ہونا چاہئے جو اخباری بیانات اور زبانی جمع خرچ سے حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے مؤثر اور متوازن رول آف لاء جو سب کے لئے یکساں ہو، اس پر عملدرآمد ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کو مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا جس میں سب لوگ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں، اس کے بغیر ہمارے بچوں کیا ہر کسی کے جان و مال اور عزت کا تحفظ کرنا آسان نہ ہوگا۔ اس کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ سیاسی قائدین اور دیگر ادارے مل بیٹھ کر حکمت عملی بنائیں، اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو معاشرے میں اس طرح کے افسوسناک واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جائیں گے جس کی لپیٹ میں آہستہ آہستہ ساری قوم آسکتی ہے۔
دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی بگاڑ کی حدود بڑھنے سے پاکستان کا رہا سہا امیج بھی دنیا میں مزید خراب ہوسکتا ہے۔ پہلے پاکستان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پرامن اور معتدل مزاج قوم پر دہشت گردی کے الزامات لگتے چلے آرہے ہیں، اب اگر اس طرح کے شرمناک اور افسوسناک واقعات کا سلسلہ بڑھ گیا تو پھر ہم دنیا کے سامنے ابھرتی ہوئی معیشت یا ترقی یافتہ قوم ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ اسلئے حکمران اور سیاسی قائدین سب مل بیٹھ کر سوچیں ہم نے آگے کیا کرنا ہے یا پھر زبانی دعوئوں پر قومی نظام چلاتے رہنا ہے۔

تازہ ترین