• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی یخ بستہ ہواؤں نے میرا یوں استقبال کیا کہ میں جہاز کی سیڑھیاں اترتے ہی ٹھٹھر گیا۔ اگرچہ صبح لاہور سے نکلتے وقت میں نے حسب ضرورت سردیوں کا لباس زیب تن کیا تھا مگر پھر بھی سوئیوں کی طرح چبھتی ہوئی یخ بستہ ہوا کے جھونکوں کو میری رگ وپےمیں سرایت کرنے کیلئے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کشمیر میں اس یخ بستہ موسم کو چلئے کلان کہتے ہیں جو اکیس دسمبر سے شروع ہوکر جنوری کے اختتام تک رہتا ہے۔ اس دوران سردی کا وہ حال ہوتا ہے کہ الامان و الحفیظ۔
حسب معمول سرینگر کے ہوائی اڈے پر چاروں طرف مسلح فوجیوں کا ہجوم نظر آیا ۔ جولائی 2016 میں آزادی پسند جنگجو کمانڈر برہان وانی کی وفات کے بعد فوجیوں کے ساتھ ساتھ بھاری جنگی ساز و سامان کی اسقدر بہتات ہوگئی ہے کہ اب تو بکتر بند گاڑیاں بھی ایسے نظر آتی ہیں جیسے ٹھیلے والوں کی قطاریں ہوں۔ ہوائی اڈے سے گھر تک پچاس کلو میٹر سفر کے دوران سڑک کے دونوں جانب فوجیوں کی لامتناہی اور ایستادہ قطاریں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ قدرتی ماحول کا حصہ ہوں۔صبح سویرےامرتسر ایئرپورٹ پر جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا یہ بیان میری نظر سے گزرا تھا کہ کشمیر کو صرف اور صرف ہندوستان کے ساتھ رہنے میں ہی فائدہ ہے۔
جنوبی کشمیرکی حدود میں داخل ہوتے ہی فون سے ایک دم انٹر نیٹ غائب ہو گیا۔ ایک دن قبل بائیس سالہ طالب علم خالد احمد ڈار کی فوج کے ہاتھوں موت کےبعد سرکار نے انٹرنیٹ سروسز منقطع کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ میرے آبائی علاقے سے پانچ کلومیٹر کی مسافت پر کھڈونی گاؤں کا رہائشی خالد اس عوامی احتجاج کے دوران فوج کی گولیوں سے زخمی ہوکر دم توڑ گیا جو جنگجو برہان وانی کی فوج کیساتھ جھڑپ میں جان بحق ہونے کے بعد رونما ہوا تھا۔ جموں کشمیر پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے خالد کی موت کو فوج پر پتھراو کے نتیجے میں جوابی کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا۔مگر دیگر پولیس افسران نے یہ کہہ کر اس قتل کا جواز فراہم کیا کہ احتجاجی ہجوم میں سے نامعلوم افراد نے فوجی کیمپ پر گولیاں چلائیں جسکے ردعمل میں فوجی کارروائی سے خالد ڈار کی موت واقع ہوئی۔ پولیس کے ان دونوں متضاد بیانات کو یکسر مسترد کرتےہوئے نامور انگریزی اخبار گریٹر کشمیر نے عینی شاہدین کے حوالے سے خبر دی کہ خالد دراصل بی۔ اے کے چھٹے سمسٹر کیلئے امتحانی فارم داخل کرنے کیلئے گورنمنٹ ڈگری کالج اننت ناگ جارہا تھا کہ رستے میں فوجیوں نے اس کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ فوج کی ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جان نچھاور کرتے وقت برہان وانی کی عمر صرف سولہ سال تھی ۔ وہ گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا،اس نے پچھلے سال جون میں فوج کے ہاتھوں اپنے ایک جنگجو دوست کی ہلاکت کے بعد مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے والدین کی کئی گزارشوں کے بعد بھی برہان گھر لوٹنے کیلئے تیار نہیں ہوا ۔ اگر چہ اس کے والد جو ایک استاد ہیں نے اپنے بیٹے کی فیس بک وال پر ایک جذباتی فریاد بھی کی مگر اسکی آواز صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی ۔بالاخر بیٹا جب گھر لوٹاتو وہ اپنے روتے بلکتے والدین کے ہاتھوں دفن ہونے کیلئے آیا۔
برہان ہندوستانی فوج کے ہاتھوں جان بحق ہونے والا دوسرا کم عمر جنگجو تھا ۔ اس سے پہلے سولہ برس کا فردین احمد کھانڈے اونتی پورہ میں مقیم ایک فوجی کیمپ پر فدائی حملے کے دوران جاں بحق ہوگیا۔ اس حملے میں پانچ فوجی اور تین جنگجو مارے گئے ۔ فردین فدائین حملے میں شریک ہونے والا پہلا کشمیری جوان تھا ۔ اس سے پہلے فدائین حملے غیر کشمیریوں کا خاصہ رہے ہیں جنہیں کشمیریوں کے مقابل سخت تصور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک اور طالب علم نے مسلح مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کی جس نے یہاں کی یخ بستہ فضاؤں میں کچھ ارتعاش پیدا کیا۔ بیس سالہ عبدالمنان وانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جیولوجی میں پی ایچ ڈی کررہا تھے اور پچھلے مہینے گھر والوں سے ملنے کشمیرآیا۔ وادی لولاب کا یہ نوجوان ایک دن اچانک غائب ہوگیا اور چند دنوں کے بعد سوشل میڈیا پر بندوق لے کر ایک تصویر کیساتھ منظر عام پر آیا۔ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے عبدالمنان کی مسلح تحریک میں شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے اس کو تحریک آزادی کے لئے خوش آئند قرار دیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عبد المنان کے کشمیری دوستوں نے مؤقر بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس میں ایک کھلے خط میں اس سے یہ فیصلہ واپس لینے کی گزارش کی۔ یہی گزارش اس کے والدین نے بھی کی تاکہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرکے ان کے بڑھاپے کا سہارہ بن سکے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ منان کی جنگجو تحریک میں شامل ہونے کی وجہ بھی وہی دلدوز اور مانوس عوامل ہیں جو کشمیری نوجوانوں کو یہ راستہ چننے پر مجبور کرتے ہیں۔ منان نے اپنی فیس بک پر وہ کہانی دہرائی جس نے ایک عظیم دانش گاہ کے طالبعلم کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا ۔ یہ وہی ذلت اور بربریت کی کہانی ہے جس کا کشمیر میں ہر روز لوگوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ رپورٹس کے مطابق منان ایک مہینے پہلے علی گڑھ سے گھر آرہا تھا جب اس کو سفر کے دوران کئی بار فوج نے گاڑی سے اتار کر ذلیل کیا۔ گاڑی میں سوار باقی لوگ منان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے رہے اور اس کو شانت رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ منان کا خون اندر ہی اندر ابلتا رہا۔ یہ جذبہ اسقدر شدت اختیار کر گیا کہ ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور نتائج سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ منان نے اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں فیس بک پر یوں تبصرہ کیا تھا: ’’یہ غلامی کی بدترین شکل ہے اور میں ایسی زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں۔
پس نوشت:
ان دلخراش واقعات کے درمیان امید کے کچھ دیئے بھی جل اٹھے۔ انشا مشتاق نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ یہ وہی انشا ہے جس کی خوبصورت آنکھیں جولائی 2016 میں اسوقت بے نور ہوگئیں جب فوجی اہلکاروں نے اس پر پیلٹ گن کی بوچھاڑ کی۔ اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھونے کے باوجود اس باہمت لڑکی نے پڑھائی جاری رکھی اور آج دسویں جماعت کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرکے زخمی دلوں کو نئی آس اور ہمت بخش دی۔ ایسے ہی ایک اور گلِ پژمردہ فرمان نذیر نے بھی دسویں کا امتحان پاس کیا۔ برہان کا قصور بھی بس یہی تھا کہ اس نے کشمیر کی وادی میں آنکھیں کھولنے کی جسارت کی تھی جن کو فوجیوں کی پیلٹ گن نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بے نور کردیا۔
اسی سلسلے کی ایک اور پر اچھی خبر یہ آئی کہ غالب افضل گورو نے بارھویں جماعت کا امتحان امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ غالب اسی افضل گورو کے بیٹا ہے جس کو بھارت کی سپریم کورٹ نے عدم ثبوت کے باوجود 2001ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کا ذمہ دار قرار دیا اور 2013 میں اس کو خفیہ طریقے سے پھانسی پر چڑھایا گیا اور لاش کو اس کے گھر والوں کے حوالے کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کو جیل کے احاطے میں ہی دفن کردیا۔

تازہ ترین