• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے اقتدار پرست طبقے کے مختلف خیالات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان خیالات کو پڑھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح کے لوگ پاکستان کے اقتدار پر مسلط ہیں۔ انہیں دیکھ کر انہی میں سے ایک کا قول یاد آ جاتا ہے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ ان لوگوں کے لئے تو قصور کے واقعات ہی کافی ہیں، جہاں ابھی تک پولیس ملزمان کی گرفتاری میں ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ تفتیشی ٹیمیں تبدیل کی جا رہی ہیں، میرے خیال میں یہ انکوائری، قصور کے واقعات کی پوری تفتیش آئی ایس آئی یا ایم آئی سے کروائی جانی چاہئے۔ اس کی جوڈیشل انکوائری بھی ہو سکتی ہے مگر اس وقت کچھ لوگ خوفزدہ ہیں کیونکہ اگر اس تفتیش کا دائرہ وسیع ہو گیا اور اگر یہ دائرہ لاہور تک پہنچ گیا تو پھر کوئی بڑی ہستی سامنے آ جائے گی، قصور کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہاں وہ بچیاں پیدا ہوئیں، باقی قصور سارا لاہور کا ہے۔ جھوٹ لکھنے اور بولنے والے اب کیوں نہیں بولتے کہ اسے کہتے ہیں گڈ گورننس؟ یاد رکھئے حضور! بولنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا بھی حساب ہو گا اور پھر جن لوگوں نے جھوٹ بولا یا لکھا، وہ ملزمان قصور کی طرح منہ چھپاتے پھریں گے مگر اس روز چھپایا نہیں جا سکے گا۔ کتنی قربانیوں کے بعد یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، یہ عظیم وطن، عظیم مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا مگر افسوس یہاں چور لٹیرے، پاکستان کی مخالفت کرنے والے اقتدار پر قابض ہو گئے کیا یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ اس ماں دھرتی کا سرمایہ لوٹ کر لندن میں جائیدادیں بنائو، کیا یہ ملک اس لئے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں سے چوری کر کے سرمایہ لے جائو اور دبئی کی بلند و بالا عمارات میں غرق کر دو، کیا تم اتنے بھی اہل نہیں تھے کہ کوئی ڈھنگ کا اسپتال اس ملک میں بنا لیتے۔ تم کس فنانس کے ماہر ہو کہ جب تمہارے اقتدار کی شروعات ہوئیں جب آپ کا روحانی باپ اپنی آمریت سمیت براجمان تھا، 1981ء میں ڈالر بارہ تیرہ روپے کا تھا، یہ آپ کی مہارت ہے کہ آج وہی ڈالر ڈار صاحب کی مہارتوں کے بعد ایک سو تیرہ روپے کا ہو گیا ہے۔ آپ لوگوں کی مہارتوں سے پاکستان کا ریلوے کا نظام برباد ہوا، ڈاک خانہ نقصان میں ہے، آپ کی اپنی ملوں کی ترقی آسمان سے باتیں کر رہی ہے مگر قوم کی اسٹیل مل آپ کی ترقیوں کا رونا رو رہی ہے۔ اب دانیال عزیز نے نئی ’’نوید‘‘ سنائی ہے کہ قومی ایئر لائن کی نج کاری کا کھیل تیار ہے۔ حیرت ہے کہ پی آئی اے جو بہت پرانی ایئر لائن ہے وہ تو نقصان میں جا رہی ہے اور آپ کے ایک ساتھی کی ایئر لائن جو بہت بعد میں بنی بلکہ ان کے چیئرمین پی آئی اے بننے کے بعد بنی وہ ترقی کر رہی ہے، کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہے؟
آپ لوگوں نے ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے ترمیم کرنے کی کوشش کی، ایسا کیوں کیا؟ جب لوگوں نے ایک وزیر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تو ڈھٹائی اختیار کی گئی، ایسا کیوں کیا گیا؟ پھر جب احتجاج ہوا، ملک جام ہوا تو ایک وزیر کا استعفیٰ آ گیا، اب سننے میں آ رہا ہے کہ ایک اور وفاقی وزیر کا استعفیٰ اسی معاملے پر آ رہا ہے مگر یہ معاملہ دبے گا نہیں۔ اس کی حقیقت سامنے آ کے رہے گی اور اگر اس معاملے کی پوری تفتیش ہو گئی تو پھر وہ شخصیات بے نقاب ہو جائیں گی جنہوں نے لندن میں قادیانی جماعت کے سربراہ سے ملاقات کی، یہ بے نقابی کچھ لوگوں کی سیاست ختم کر دے گی، کیا آپ کے علم میں نہیں تھا کہ پاکستان پاک لوگوں کی سرزمین ہے، کیا اس بات کا پتا نہیں تھا کہ یہاں عاشقان رسول ﷺ کا بسیرا ہے۔
اب آ جاتے ہیں بلوچستان کی طرف، جس کا نام لے کر مشرقی پاکستان کی باتیں ہو رہی ہیں آپ نے تو شیخ مجیب الرحمٰن بننے کی بات کی مگر آپ کا ایک وزیر فرما رہا ہے کہ ’’بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسا کھیل کھیلا گیا‘‘ آپ ذرا بتایئے کہ بلوچستان میں کونسا کھیل کھیلا گیا، کیا وہاں جمہوری عمل سے حکومت نہیں گئی؟ کیا وہاں ن لیگ کے لوگوں نے بغاوت نہیں کی؟ ہو سکتا ہے اگلے چند روز میں یہ بغاوت آپ کو وفاق میں بھی نظر آئے، پنجاب میں بھی دکھائی دے۔ آپ کو یاد تو ہو گا کہ مشرقی پاکستان میں سارا کھیل مکتی باہنی کا تھا، موجودہ بھارتی وزیراعظم جو آپ کا بڑا محبوب ہے اس نے اقرار کیا ہے۔ یہ آپ کی حکومت کی کمزوری تھی کہ آپ لوگ یہ مقدمہ اقوام متحدہ میں یا کسی اور انٹرنیشنل فورم پر نہ لے جا سکے، خیر آپ کیوں لے جاتے، آپ تو کلبھوشن کا نام تک نہیں لیتے، آپ تو بھارت سے تجارت کرتے ہیں، آپ کا ایک وزیر طورخم بارڈر پر بھارتیوں کے لئے ای فارم ختم کر کے ملک کو روزانہ کروڑوں کا نقصان پہنچاتا رہا، آپ نے کیا بات ہے؟ مجیب الرحمٰن تو بھارتی ایجنٹ تھا، کیا آپ بھارتی ایجنٹ بننا چاہتے ہیں؟ شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ پھر بنگالیوں نے کیا کیا، یہ سمجھنے کے لئے آپ بنگلہ دیش میں تعینات پہلے بھارتی ہائی کمشنر مسٹر ڈکشٹ کی کتاب پڑھ لیجئے، کس طرح بنگالیوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کو خاندان سمیت مارا، حسینہ واجد کے بچنے کی واحد وجہ ان کا بیرون ملک ہونا تھا، بلوچستان میں مسائل اور ہیں، بلوچستان کے لوگ محب وطن ہیں، وہاں کیا مسائل ہیں، ان کا حل کیا ہے سن لیجئے۔
چند ماہ پیشتر سابق وفاقی وزیر محترمہ زبیدہ جلال نے مجھے بتایا تھا کہ ’’اگر بلوچستان میں پچاس ہزار نوکریاں دے دی جائیں تو یہ صوبہ پُر سکون ہو جائے گا‘‘۔ دور روز پہلے سابق سینیٹر حافظ حسین احمد میرے گھر تشریف لائے، بلوچستان کی بات ہوئی تو میں نے محترمہ زبیدہ جلال والی بات بتائی، جس پر لمحہ بھر کی تاخیر کئے بغیر ان کے صاحبزادے ظفر نے کہا کہ ’’بالکل ٹھیک وہاں مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ نے کیوں 35ہزار اسامیاں خالی رکھیں‘‘ بلوچستان کا مسئلہ صرف اور صرف پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار کا ہے، پتا نہیں آپ نے کونسی بے روزگاری ختم کی، آپ لوگوں نے تو مہنگائی اتنی کر دی کہ لوگوں کا جینا محال ہو گیا، آج لوگوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہے، اس کا قصور وار کون ہے؟ ذرا سوچئے حکمران نہیں تو اور کون؟
آخر میں حکمرانوں کی خدمت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول پیش کر رہا ہوں، آپؓ فرماتے ہیں کہ کہاں بھٹک رہے ہو اور کدھر کا رخ کئے ہوئے ہو، کن چیزوں کے فریب میں آ گئے ہو؟ یقین رکھو، اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم سے ہر ایک کا حصہ قد بھر زمین کا ٹکڑا ہی تو ہے جہاں یہ جسم رخسار کے بل مٹی پر پڑا ہوگا‘‘۔
میاں صاحب! جو آپ سوچ رہے ہیں ایسا نہیں، حقیقت یہی ہے جو حضرت علیؓ کا قول ہے، آپ کے لئے یہ شعر بھی سوالات لئے کھڑا ہے کہ؎
اک شہر خواب ہم نے بسایا تھااور پھر
اس میں رہے نہ اس کے مضافات میں رہے.

تازہ ترین