• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمار ےاسٹیٹس کو کے روایتی مقبول حکمرانوں نے اپنی سابقہ بدتر حکمرانی میں ثابت شدہ بدنیتی، کرپشن، قومی مفادات کے مقابل انتہا کی خودغرضی اور پہاڑ سی غلطیوں کے تشویشناک نتائج سے کچھ بھی تو سبق نہیں لیا۔ اب ان کے احتسابی عمل کے لئے پاناما لیکس ایسا معجزہ ہی نہیں ہوا، اس سےمحفوظ رہنے کےلئے لیکس سے قبل رسوائے زمانہ این آر او نے انہیں سابقہ بدتر طرز ِ حکمرانی ترک کرکے عوام دوست گورننس کا ایسا بھرپور موقع فراہم کیا جو کسی بھی جانب کی مداخلت کی فکر سے آزاد تھا۔ یہ ثابت بھی ہوا کہ مداخلت توپہلے سے بھی بدتر حکمرانی پر بھی کسی جانب سے نہ ہوئی، حکمران مرزا یار بنے رہے لیکن پھر ملک اندھیرنگری بن گیا۔ ایک بار پھرحقیقی جمہوریت کی آمد کی تمام امیدیں ٹوٹنے کے باوجودعوام نے ہر دو آئینی باریوں (2008اور 2013والی) کے چوپٹ راجوں کو برداشت کیا، اسے جمہوریت کی خاطر بدتر حکمرانی کو بھی انتہا کی تکلیفوں کے ساتھ برداشت کرنے کا ایثار سمجھ لیا جائے۔ بے لچک اسٹیٹس کو کے مقابل ان کی بے بسی یا بےحسی۔ یہ تلخ حقیقت اٹل ہے کہ ان دونوں باریوں کی بدترین حکمرانی میں جتنا صبرجمیل کا مظاہرہ کیا، نظام بد تشکیل دینے والوںنے وکلا اور عوام کی تحریک کے نتیجے میں ہونے والی بحالی جمہوریت پراپنے اسی عوام دشمن نظام کو قائم رکھتے ہوئے، اسی کے فریم میں رہتے ہوئے قومی خدمت کے ریاستی اداروں کو ہی تباہ نہیں کیا (جیسے پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز، شعبہ ہائے زراعت و صنعت اور تعلیم و صحت) بلکہ پارلیمنٹ کا کردار پہلے سے بھی مایوس کن رہا، جس میں تازہ دم وارد ہونے والی اپوزیشن کی بھی مجرمانہ غفلت کونظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس نے بڑا اہم سوال پیدا کیا کہ جو پارلیمنٹ میں آ کر مطلوب اپوزیشن نہیں کرپا رہے، کیا وہ حکومت ملنے پر حکومت بھی صحیح کرسکیں گے؟
اختتام پذیر جاری عشرہ بحالی ٔ جمہوریت میں پاکستان فقط کوئی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ہی اندھیرنگری نہیں بنا یہ ’’کارنامہ‘‘ تو پیپلزپارٹی کی چوتھی وفاقی حکومت کی گورننس کے سیاہ باب کے طور تاریخ کا ریکارڈ بن ہی گیا۔ دھماچوکڑی کوئی ن لیگ نے بھی کم نہیں مچائی، قومی اداروں میں خلاف ِ میرٹ سربراہی سطح کی غیرقانونی تعیناتی سے میرٹ کا قتل بے دردی سے ہوا۔ شدید مالی بحران میں بھی حکمرانوں کے بدترین احساس کمتری کا پیغام دینے والے پروٹوکول اور وزرا و مشیروں کی فوج ظفرموج کی اِن پٹ کے مقابل مایوس ترین آئوٹ پٹ، پھروہی پہلے ادوار کی طرح پارٹی سپیٹری اپروچ سے نظریں چراتے ہوئے عوامی نمائندوں کو ترقیاتی اہداف، ترجیحات کے تعین میں شریک کئے بغیر واضح مشکوک اور متنازع ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ کا تسلط کیا گیا۔ سول سوسائٹی کی ایک نہ سنی گئی۔ میڈیا میں ان کے حوالوں سے کرپشن اور خلاف ِقانون اقدامات کی مسلسل رپورٹنگ نے ن لیگی اندھیرنگری پر جتنی روشنی باربار ڈال کر اسے دکھایا، اس سے مطلوب کفّارے کے برعکس اس کی دیدہ دلیری اور اسٹیٹس کوپرقائم رہنے اور اسے مسلسل بڑھانے اورطاقت ور بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بھرپور نئے سے نئے ٹیکسز کا عوام دشمن اور حکمران دوست نظام بدستور برقراررہا۔ ہر دو آئینی ادوار میں عوام کے جمہوری جذبے، میڈیا کے بڑھتے مثبت پیشہ ورانہ اور جمہوری کردار اور سب سے بڑھ کر جوڈیشل ایکٹوازم اور مداخلت کی اسٹیبلشمنٹ کی روایتی اپروچ میں واضح تبدیلی کے مقابل دونوں منتخب حکومتوں نے ’’قومی سیاست اور حکومت‘‘ پر دوخاندانوں کی اجارہ داری کو اور پختہ کیا۔ آج جب بحالی ٔ جمہوریت، بحالی ٔ آئین کا عشرہ ہر دو پاپولر جماعتوں کی حکومتوں کی جانب سے مطلوب اصلاح اور کفّارے کے بغیر اختتام پذیر ہے تو لوٹ مار توجو ہوئی سوہوئی کہ یہ قباحت ہی اسٹیٹس کو کا لازمہ ہے لیکن اس تمام تر مایوس کن صورتحال کے باوجود، اسی عشرے میں امیدوں کے نئے چراغ بھی جلے، جن سے نئے حوصلہ افزا نتائج کی نشاندہی بھی کی گئی۔ آئین کی اصل حالت میں بحالی کے باوجود اگرچہ اس عشرے میں آئین سے انحراف اور قانون کے اطلاق میں دوہرا معیاربرتے جانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی اداروں کا مفلوج رہنا اس کا واضح ثبوت ہے۔ تاہم بحالی جمہوریت کا یہ عشرہ ہمیں افواج پاکستان کی جمہوریت اور آئین وقانون کی بالادستی کے ساتھ اعلانیہ کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آزادی، اس کے کار میں عدم مداخلت اور جوڈیشل ایکٹوازم کی صورت میں بہت کچھ دے گیا۔ اس کا آغاز کرنے والے سابق چیف جسٹس جناب افتخار چوہدری نے وزیراعظم کی سپریم کورٹ کے احکامات پر وزیراعظم کو ہی بمطابق قانون اقتدار سے الگ نہیں کیا بلکہ پیپلزپارٹی کی حکومتی دھماچوکڑی کو بھی ممکنہ حد تک قابو میں رکھا۔ اس کا نقصان پی پی کو ہی سب سے زیادہ ہوااور عدلیہ کے کردار میں اضافہ..... جناب افتخارچوہدری کے اس جوڈیشل ایکٹوازم نے بہت شہرت پائی اور نااہل انتظامیہ اورمقننہ کے مقابل عدلیہ کی سرگرمی اوراپنے اختیارات کے استعمال سے جمہوریت کا بھرم بھی قائم رہا۔
آج پھر سپریم کورٹ نے اپنے خلاف حکومتی جماعت کی غیرآئینی و قانونی مہم جوئی کے مقابل یا جو اب میں بدترین حکمرانی میں عوام کے غصب کئے گئے بنیادی حقوق کی قانونی بازیابی کے لئے جو پوزیشن لی ہے پاناما لیکس کیس کے فالو اپ کے طور پر سے یہ جوڈیشل ایکٹوازم II (دوم) ہے۔ اب ایک طرف جناب نواز شریف ایک تیر سے دو شکار کی تلاش میں نکلے ہیں، عدلیہ کے اپنے خلاف نااہلی کے فیصلے کو متنازع بنانے اور اپنے ووٹ بڑھانے کے لئے بھی۔ جو پاناما اور تحفظ ِ ختم نبوت ؐ کے آئینی مندرجات میں تبدیلی کی جسارت سے کم تر ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب عوام کی حالت زار، امن عامہ کی بگڑتی حالت، اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عوام کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے ازخود سوموٹو نوٹس سے بھی آگے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار خو د میدان میں اتر آئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عوام کی چیخ وپکار پر اپنے مخصوص قانونی اختیارات کے استعمال کے ساتھ ساتھ عوام کو سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کے لئے حکومتی ذمے داریوں کی جو نشاندہی کی ہے جس میں عدالتی اصلاحات اور ان پر عملدرآمد کے لئے نئی قانون سازی شامل ہے، کو فوکس کیاجائے۔ حکومت اس پر ٹس سے مس نہیں ہوتی تو اپوزیشن ہی کوئی اصلاحاتی بل بحالی ٔ جمہوریت کا عشرہ ختم ہونے اور عام انتخابات سے پہلے پارلیمان میں لے آئے۔حکومت کے لئے یہ امتحان ہوگا کہ یا تو وہ اپنی رائے کے ساتھ اس میں پیش رفت کرے اور اکثریت کی دھونس پر مسترد کرتی ہے توبے نقاب ہے کہ وہ عوام کو انصاف کی فراہمی اور اس کے لئے عدالت کی مطلوب سکت بڑھانے میں بھی مزاحم ہے۔ کیا پی پی سمیت دوسری اپوزیشن جماعتیں سانحہ ماڈل ٹائون کے احتجاج کی طرح اس اہم ترین قومی ضرورت کے نکتے پربھی متحد ہوسکتی ہیں؟

تازہ ترین