• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام کمپنیوں کے دودھ کے معائنے کا حکم دے دیا ہے، کراچی میں پانی ٹینکر مافیا کا خاتمہ کر کے دکھائیں گے، بچپن سے بڑے یہی سمجھاتے رہے کہ دودھ اللہ تعالیٰ کا نور ہے، اور دودھ کا ذکر قرآن حکیم میں کیا گیا کہ کس طرح خالق کائنات خون سے دودھ بناتا ہے، دودھ ایک ایسا ٹانک ہے جس کے مقابل کوئی ٹانک نہیں بنایا جا سکتا، یہ مکمل غذا ہے، اور واقعی یہ اللہ کا نور ہے، مگر آج ہمارے معاشرے میں کلمہ پڑھنے والے اس نور میں مضر صحت اجزاء اور پانی ملا کر اسے دودھ کی جگہ زہر قاتل بنا دیتے ہیں، چیف جسٹس نے دودھ بنانے والی کمپنیوں کا نوٹس لے لیا، نہایت اچھا اقدام ہے مگر گوالے دودھ کے نام پر جو سفید رنگ کا محلول گلی گلی بیچتے ہیں، ان کو کب لگام دی جائے گی، تمام دودھ نہ صرف وائٹنرز ہیں بلکہ بھینسوں کے دودھ تو کلرز بھی ہیں، بھینسوں کو ایسے زہریلے ٹیکے لگا دیئے جاتے ہیں کہ وہ دگنا دودھ دینے لگتی ہیں، دودھ میں سے واضح طور پر بو آتی ہے جو اس کیمیکل کی ہوتی ہے جو ہر روز بھینس کو ٹیکے کے ذریعے دی جاتی ہے، موٹر سائیکل پر سوار شخص ایک ڈبہ لے کر بھینسوں کے باڑے میں آتا اور یہ زہریلے ٹیکے تقسیم کرتا ہے، جو گوالے خریدتے ہیں اور خوب کمائی کرتے ہیں، یہ کیمیکل بھینسوں کی ہڈیوں کو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ بھینس جلد مر جاتی ہے مگر اس کا مالک اس سے کئی بھینسیں کما چکا ہوتا ہے، کمپنیوں کے ساتھ گلی محلے میں دودھ سپلائی کرنے والوں کا بھی کوئی بندوبست کیا جائے، چیف جسٹس کمپنیوں کے ساتھ گوالوں کو بھی شامل تفتیش کریں، ترقی یافتہ ملکوں میں گوالا سسٹم نہیں، وہاں ڈیری فارمز سے روزانہ تازہ پیک دودھ دکانداروں کو سپلائی کیا جاتا ہے، یہ دودھ فارم ہی میں چیک ہوتا ہے، اور اس پر ایکسپائری ڈیٹ درج ہوتی ہے، ایک ایسا نظام وضع کیا گیا ہے کہ وہاں کسی بھی کھانے پینے کی چیز میں ملاوٹ کا تصور بھی نہیں، کیا ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭٭
چراغ تلے اندھیرا
قصور 200:افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ، ملزم ہاتھ نہ آیا، نیا خاکہ جاری۔ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر قریبی رشتہ دار بھی جرم میں ملوث ہوتے ہیں، اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ایسے رشتہ دار احتجاج اور معاملے کو ہینڈل کرنے میں بہت پیش پیش ہوتے ہیں، ہماری تجویز ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں اور تفتیش کی کوششوں میں قریبی رشتہ داروں کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ جس شخص کے ساتھ زینب انگلی پکڑ کر جا رہی تھی اگر وہ اجنبی ہوتا تو بچی یوں اس کی انگلی پکڑ کر ساتھ نہ چلتی، وہ مجرم سے مانوس تھی اور اسے اعتبار تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے درست ہے، مجرم کو زینب کے گھریلو حالات اچھی طرح معلوم تھے، وہ جانتا تھا کہ زینب کے والدین عمرہ کرنے گئے ہیں اور بچی کو کسی عزیز کے سپرد کر گئے ہیں، یہ ایک رائے ہے اسے بھی پیش نظر رکھا جائے کہ اپنے ہی عزیز و اقارب بھی ایسے گزشتہ کئی واقعات میں ملوث پائے گئے اور ایک سروے میں بتایا گیا کہ 42فیصد ایسے مجرم قریبی عزیز ہی تھے جو متاثرہ خاندان سے ہمدردی اور کیس کو پیش کرنے میں آگے آگے تھے، بہرحال اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کسی جان پہچان کے شخص کا کام ہے جس کا آنا جانا تھا اور زینب اس سے مانوس تھی، ورنہ آٹھ سال کی بچی کسی انجانے آدمی کے ساتھ یوں انگلی پکڑ کر نہ جاتی، یہ ایک خدشہ ہے جس کو تفتیش کے حوالے سے سامنے رکھنا چاہئے، 6دن گزرنے پر مجرم کا نہ پکڑا جانا ہمارے خدشے کو تقویت دیتا ہے کیونکہ پولیس نے تاحال قریبی عزیزوں کو تفتیش میں شامل نہیں کیا، اکثر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق گھر کا بھیدی عزیز رشتہ دار نہیں پکڑا جا سکتا کیونکہ اس پر شک ہی نہیں کیا جا سکتا، مگر تفتیش کا تقاضا ہے کہ عزیزوں رشتہ داروں کو بھی شامل تفتیش کیا جائے، اگر مجرم نہ پکڑا گیا تو یہ فتنہ مزید بڑھے گا۔
٭٭٭٭
بہتر تو ہے یہی ۔۔۔
بہتر تو ہے یہی کہ حکومت کو، جمہوری ایوانوں کو مدت پوری کرنے دی جائے، اور کسی بھی آڑ میں ایسی تحریک نہ چلائی جائے کہ ایک معاملے کو حل کرتے دوسرا بگاڑ دیا جائے۔ جمہوری عمل کا جاری رہنا ضروری ہے، چند ماہ کی مسافت پر جنرل الیکشن کھڑے ہیں، ایسے میں حکومت گرانا کوئی بڑا کارنامہ نہ ہو گا، بلکہ گرانے والوں پر دیوار گر سکتی ہے، اور عنوان چونکہ برگد کا درخت ہے اس لئے تمام موضوعات زیر قلم لائے جا سکتے ہیں مثلاً؎
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں کہ کام نہ بے دل لگی چلے
جب سے خود کش حملوں کا رواج عام ہوا ہے معشوق کشی بھی عام ہو گئی ہے، جس کو چاہا اسے نہ پایا تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور پھر چل نکلے کسی نئے معشوق کے شکار پر، گویا اب غالب کا یہ مصرع حالات کی سنگینی کے باعث نئے مفہوم میں بھی فٹ نکلا؎
عشق مجھ کو نہ سہی وحشت ہی سہی
عشق وحشت سے ہوتا ہوا دہشت میں قدم رکھ چکا ہے، دیکھئے کہاں تک پہنچے۔ اکثر خبریں ملتی رہتی ہیں کہ محبوبہ نہ ملی تو محبوبہ کو ٹھاہ ٹھاہ مار دیا، اور خود فرار ہو گئے، بہت کم کسی قاتل عاشق نے خود کو بھی مار دیا، اب وہ دن گئے کہ عاشق خون جگر پی کر گزارہ کر لیتا تھا، فلموں میں تو اب بھی ایسا ہوتا ہے کہ عاشق بارات میں بھی شامل ہوتا ہے، ولیمہ بھی کھا لیتا ہے اور اس لذیز محرومی کے مزے لیتا ہے جو خوداذیتی میں مبتلا عشاق کے لئے نعمت ہوتی ہے، بہرحال لیلائے اقتدار کے عاشقوں کو کسی کی لاش پر کھڑے ہو کر حکومت گرانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭
دیکھتا جا!
....Oہلیری کلنٹن امریکی صدر پر برس پڑیں، نسل پرست قرار دے دیا۔
بی بی! اگر ٹرمپ نسل پرست نہ ہوتا تو ہار جاتا۔
....Oعائشہ گلالئی:عمران خان کی گھٹیا سیاست پر قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔
اور آپ کو گنٹھیا سیاست پر،
....Oحکومت کا الیکشن سے قبل بڑے قومی ادارے بیچنے کا فیصلہ،
پاکستان اسٹیل ملز کو خریدنے والے بھی دلچسپی لیں: دانیال عزیز کوئی ایسی بات نہیں کرایہ دار بعض اوقات اپنے سامان کے ساتھ مالک مکان کا سامان بھی اکھاڑ کر لے جاتے ہیں، اچھے طالبان برے طالبان کی طرح اچھے کرائے دار برے کرائے دار بھی ہوا کرتے ہیں۔

تازہ ترین