• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معصوم زینب کے قتل نے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر مائوں کے کلیجے پھٹ کر خون کے آنسو بہانے لگے ہیں۔ایک مرتبہ پھر مائوںنے اپنی بچیوں کو گھروںسے باہرنکلنے کے خوف سے اپنی اپنی آغوش کے پروں میں چھپا لیا ہے۔پورا ملک نہ صرف سوگوار ہے بلکہ سراپا احتجاج ہے لیکن ز ینب سے زیادتی ،اس پر تشدد اوراس کا قتل پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ آخری واقعہ ہے کیونکہ بات وہی ہے جو چند روز قبل میں اپنے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ معاشرہ ایک ایسے بگاڑ کی طرف چل پڑاہے جس سے ہمیں شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں ہمارے نظام میں ایک ایسا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے جو صرف خواص کے تحفظ کیلئے ہے۔انفرادی اور ذاتی مفادات اور بڑے لوگوںکیلئے تحفظ کے لئے ہے۔ اچھا معاشرہ زمین بوس ہورہا ہے۔بلکہ زینب کے واقعہ کے بعد اور کیا زمین بوس ہوگا۔اب سے تین چار دہائیاں قبل محلے داری میں لوگ بہن بھائیوں کی طرح رہتے تھے ۔بڑے بڑے آہنی گیٹوںکی بجائے گھروں پر پڑے صرف ٹاٹ کے پردے ہوتے تھے۔تنکوں کی چک ہوتی تھی۔ یا لکڑی کے معمولی کواڑہوتے تھے ۔لیکن ٹا ٹ کے وہ پردے۔تنکوں کی وہ چک اور لکڑی کے معمولی کواڑ آج کل کے آہنی اور مقفل بڑ ے بڑے گیٹ اور دروازوں سے زیادہ مضبوط تھے۔ خواتین کا احترام تھا۔بچے سب کے سانجے ہوتے تھے۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے اتنے قریب کہ اگر کسی کے گھر چار مہمان زیادہ آجاتے تو اپنے گھروں کی چار پائیاںاور بسترے نکال دے دیئے جاتے۔ غمی یااموات کی صورت میں اپنے گھروںمیں کھانے پکواکر بھجوائے جاتے۔غمی یا خوشی کاکوئی خاص موقع نہ بھی ہوتا لیکن کسی گھر میں کوئی میٹھی چیز پکتی اور کوئی اور بڑا کھانا پکتا تو تھوڑی تھوڑی پلیٹوںمیں ڈال کر پورے محلے میں تقسیم کیاجاتا،محلے کی بوڑھیاں بلامعاوضہ محلے کے بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتیں۔محلے کی کوئی عورت باہرنکلتی تو مرد راستہ خالی کردیاکرتے نوجوان لڑکے بڑوں کے ادب میںمحلے سے گزرتے ہوئے سرجھکالیتے ،اساتذہ کا ایسا احترام کہ انکے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی چیزیں آگے بڑھ کر ان سے لے لیتے اور انہیں اساتذہ کے مطلوبہ مقام تک ادب کے ساتھ لے جاتے۔لیکن سب کچھ ہی تبدیل ہوگیا ہے۔حرص، ہوس،لالچ اور خو د غر ضی نے سب کچھ تہہ وبالا کردیا ہے۔نہ بڑوںکا ادب رہاہے اورنہ ہی چھوٹوں پر شفقت ہے۔بچے اور نوجوان جواس بات سے ڈرا کرتے تھے کہ کوئی دوسرا ان کے گھر انکی کوئی شکایت لیکرنہ چلا جائے ورنہ والدین شکایت لانے والے کے سامنے ہی نہ صرف ’’خاطر مدارت‘‘شروع کردیتے تھے بلکہ اپنے لاڈ لے بچوں سے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان سے فوراً معافی مانگو۔ لیکن اب کسی کے بچے باہر قتل بھی کرآئیں تووالدین کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی بلکہ اپنی ناجائز دولت اور سارے وسائل بچوں کو بے گناہ ثابت کرانے میں جھونک دیتے ہیں۔ مظلوموں سے معافی تلافی کی بجائے انہیں بھی مزید نشان عبرت بنادینے کی دھمکیا ں دیکرانہیں نہ صرف اپنا کیس واپس لینے بلکہ علاقہ چھوڑ دینے پر بھی مجبورکردیتے ہیں۔ اور قاتل جب اپنی دولت،اپنی دھونس اور اپنے ناجائز وسائل کے بل بوتے پرقانون کے کمزور حصار سے نکل آتے ہیں تو پھر وہ کمزور اور مظلوم طبقے کے زخموں پر نمک پاشی کیلئے وکٹری کا نشان بناتے ہیں ۔جن کے سرشرم سے جھکے ہونے چاہیں۔ ان کے چہرے بے غیرتی اور بے حسی کے قہقہوں سے اٹے ہوتے ہیں۔ جب معاشرے میںایسا بگاڑپیدا ہوجائے تو پھر زینب کے قاتل ہرگلی محلے میں پیدا ہوتے ہیں۔ جن کے سینے میں دھڑکنے والا گوشت پوست کا دل نہیں بلکہ ایک سیاہ اور پتھریلہ،سخت اور بے حس لوتھڑا ہوتا ہے جس میں ہر وقت ہوس کا خون پمپ ہوتا رہتا ہے۔ہمیں ایک زینب ،ایک نیلم،ایک طاہرہ ایک شاہ زیب یا کسی ایک مظلوم فرد کا ماتم نہیں کرنا بلکہ معاشرے میں پیداہونے والی ہوس،لالچ اور کرپشن کے سارے بت توڑنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مذہبی اور اخلاقی اقدارکوبیدارکرناہوگا۔ اگر ایک چپڑاسی دس روپے کا پن یا دفتر کی اسٹیشنری چوری کرکے گھر بچوں کیلئے لے جائے گا۔کلرک جائز کام کے لئے مٹھی گرم کرنے کی فرمائش کرے گا۔ چھوٹے سے بڑے عہدے تک والے اپنے اکاونٹس بھرتے اپنے پلاٹوں اور بنگلوںکی تعداد میں ناجائز اضافے کی تگ و دو میں لگے رہیںگے داد رسی کرنے والے ادارے بہرے اورگونگے ہو کر صرف نوکری اور ہرماہ کی تنخواہ وصول کرنے کیلئے محض ڈرامے اوربڑوں کو راضی کرنے کیلئے کام کریں گے تو زینب روزانہ لٹتی اورقتل ہوتی رہے گی۔ کوئی ہے جو معاشرے میں تبدیلی کیلئے کرداراداکرسکے؟

تازہ ترین