• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانیت کی بقا اور فلاح کے لئے دنیا کو آج امن کی جتنی ضرورت ہے، بدقسمتی سے سپر پاور امریکہ اور اس کے بعض غیر ذمہ دار اتحادی ملکوں کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات کی وجہ سے عالمی افق پر جنگ کے اس سے کہیں زیادہ خطرات منڈلا رہے ہیں۔ امریکہ کے نسل پرست صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال نو کے ٹویٹ میں پاکستان کو دھمکیاں دے کر باہمی تعلقات میں جو بگاڑ پیدا کیا تھا اس کے اثرات سے ابھی باہر نہیں نکلے تھے کہ بھارتی آرمی چیف کے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان نے اس خطے میں امن و سلامتی کی صورت حال کو مزید مکدر کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو بھارت میں اسلحہ کی فیکٹریاں قائم کرنے، ٹینک شکن میزائلوں سمیت دوسرے تباہ کن ہتھیار بیچنے اور تجارت کے نام پر مشترکہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے نئی دہلی پہنچ گئے۔ اس طرح امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی یہ تکون دہلی میں مکمل ہو گئی جس نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے اندیشوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس وقت ایک طرف امریکہ ہے جس نے عراق، شام، لیبیا اور یمن میں تباہی پھیلانے کے بعد پاکستان، ایران اور شمالی کوریا کو نشانے پر لے رکھا ہے اور اب افریقی ممالک کو گھٹیا قرار دے کر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف بھارت ہے جس نے جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ ساتھ ہی چین کے ساتھ ملنے والی سرحد پر چھیڑ خانی کر رہا ہے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اس کا روز مرہ کا معمول ہے اتوار کو بھی وادی میں بھارتی فوج نے6کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں شہید کردیا۔ یہی سلوک اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ امریکہ بھارت اور اسرائیل کی یہ تکون بنی نوع انسان کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے کامیاب جنگ لڑ کر اپنے علاقے کو اس عفریت سے نجات دلا دی مگر امریکہ اربوں ڈالر خرچ کرنے اور نیٹو اتحادیوں کی مدد کے باوجود افغانستان میں بری طرح ناکام رہا اور اس شکست کا غصہ اب پاکستان پر نکال رہا ہے۔ پاکستان اس کے دبائو میں نہیں آیا تو اسے اپنا ہمنوا بنانے کے لئے اس نے خاموش ڈپلومیسی شروع کردی ہے۔پہلے امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلیفون کیا اور اب قائم مقام امریکی معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز پاکستان آئی ہیں۔ پاکستانی حکام سے ان کی بات چیت کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ امریکہ کو اپنی غلطیوں کا کچھ تو ادراک ہوا ہے۔ اسی لئے مختلف سطحوں پر پس پردہ یا ظاہری طور پر اس نے پاکستان سے رابطے شروع کئے ہیں۔ پاکستان نے امریکی رابطہ کاروں پر واضح کردیا ہے کہ بھارت جنگ بندی معاہدے کی جو مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے وہ کسی بھی اسٹرٹیجک غلطی کے سبب خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہیں۔ امریکہ بھارت کو ایسی کارروائیوں سے روکے۔ امریکی معاون وزیر خارجہ نے پاکستان سے انٹیلی جنس شیئرنگ کی درخواست کی ہے جس سے افغان امن میں پاکستان کے کردار کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اسی اثنا میں ترکی میں56اسلامی ملکوں کی پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں کشمیری عوام کی حمایت میں ایک قرار داد منظور ہوئی ہے جو ایک اچھا قدم ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ اسلامی ممالک کو جن میں سے بعض بھارت کی منافقانہ چالوں میں آکر کشمیر کے مسئلے پر غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے پس منظر میں بھارتی حکومت کے حقیقی عزائم سے آگاہ کرے اور ان تمام آزادی پسند قوموں سے جنہوں نے القدس پر فلسطینی کاز کے حق میں ووٹ دیا ایسی ہی ایک قرار داد کشمیریوں کے حق میں بھی منظور کرائے۔ ارد گرد کے حالات پر کڑی نظر رکھے اور امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ مودی حکومت کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے متحرک اور فعال سفارت کاری بروئے کار لائے۔بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے چوکس رہنا ضروری ہے۔

تازہ ترین