• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پالیسی کے نام پر کسی خیال اور تقاضے کو الٹی چھری یا کند چھری سے ذبح نہیں کیا جا سکتا، بسا اوقات حوالے ذاتی تعارف نہیں نقطہ نظر کے مکمل ابلاغ کی اخلاقیات کا تقاضا ہوتے ہیں، وہ لوگ جو ’’پالیسی‘‘ کے نام پر، ذاتی طبیعت کے تقاضوں کا نفس پرستانہ شغل اختیار کرتے ہیں، کوئی ایسے دانش مند بھی نہیں جنہیں ہمہ وقت سر آنکھوں پر بٹھایا جائے، ایسے رویوں کے حامل افراد اکثر اوقات اہل نظر کے لئے شدید ترین انقباض خاطر کا موجب بنتے ہیں۔
چنانچہ ہمارے اخبار کے مقتدرکالم نگار اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ کا حوالہ پیش کردہ اصولی نقطہ نظر سے ملک و قوم کے لئے اس وقت مفید بن جاتا ہے جب آپ موجودہ جمہوری تسلسل کے خاتمے یا اسے داغدار کرنے کی کوششوں کے تناظر میں ان متعلقہ منتخب تحریروں کا تذکرہ ریکارڈ پر لاتے ہیں، اور یہ تذکرہ سب سے پہلے ان چار پانچ ماہ قبل لکھے گئے کالم Party is overسے شروع ہو کر تین چار روز قبل کے شائع شدہ کالم "Beginning of the end"تک جاتا ہے! درمیان میں یونانی ریاضی دان ارشمیدس کا اچانک کسی حسابی فارمولے کی دریافت پر ’’پا لیا، پا لیا‘‘ کا رقص قومی سیاست کی موضوعی صورتحال کے فہم کی الم انگیز تاریخی یادوں کی طرف سے جاتا ہے، جہاندیدگی سے متصف کالم نگار برادر نصرت جاوید نے ان کے استعاراتی اظہاریوں کو کولمبیا کے گبرائل گارسیا مارکوسز کے ’’نامعلوم افراد‘‘ میں متشکل کر کے بات آگے چلائی ہے، انہوں نے کہانی آگے بڑھا کر کسی بھی دوسرے قصہ گو کو مزید راستہ دے دیا ہے اور یہ ہے، استعاراتی سندیسوں کی ایک اور انسانی سچائی، جب ’’معلوم‘‘ یا ’’نامعلوم‘‘ پوری دیانتداری یا پورے تکبر کے ساتھ ملک و قوم کے مقدر سے کھیل جاتے، پھر کہیں کسی محل کی کھڑکی سے اسپین کے حکمران کسی عبداللہ کی ماں اسے کہہ رہی ہوتی ہے ’’جب فرڈینڈ اور ازابیلا تمہارے دروازے پر آ گئے ہیں، اب عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟
آپ پہلے ایک اور تاریخی کہانی پڑھتے جائیں، لکھا گیا ہے ’’دہلی پر نادر شاہ ایرانی کے قبضے کے بعد نامعلوم افراد نے اس کے قتل کی خبر پھیلا دی اس کے ظالمانہ حملے اور قبضے سے ستم رسیدہ مقامی لوگوں نے اس کے سپاہیوں کو لاوارث سمجھ کر ان کا قتل عام شروع کر دیا۔ نادر شاہ نے جواباً مخلوق خدا کے قتل عام کو جس شیطانی عریانی کا عنوان دیا، وہ انسانی تاریخ کا شرمندہ باب ہے۔ 10مارچ 1739کا دن یوم حشر کے لئے ریکارڈ پر ثبت رہے گا۔ کہانی کا اختتام یہ ہے۔ ’’جب نادر شاہ کے حکم سے دہلی میں خون کی ندیاں بہہ چکیں تو لوگوں نے دہلی کے درودیوار پر قانون قدرت کی یہ شق لکھ دی! ’’انجام ظالم بداست‘‘، نادر شاہ گھوڑے پر شہر میں نکلا، اس نے جا بجا یہ جملہ دیکھا تو اس کے ذہن میں قانون قدرت کی دوسری شق آئی، حکم دیا ’’جہاں جہاں یہ درج ہے ’’ظالم کا انجام بُرا ہوتا ہے‘‘ وہاں وہاں اس کے نیچے لکھ دو ’’لیکن بعد از بربادی مظلوم‘‘
بیان کردہ داستان "Beginning of the end"کو آگے لے کر چلتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے ہاتھوں عوام کے تیسری بار منتخب کردہ وزیراعظم محمد نواز شریف کو ’’نا اہل‘‘ ڈیکلیئر کیا گیا، انہوں نے چند روز قبل میڈیا سے خطاب کے دوران کہا ’’محب وطن شیخ مجیب کو باغی بنا دیا، اتنے زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں‘‘ اور بلوچستان پر سیاسی حملہ کے تناظر میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کے خیالات بھی ملاحظہ کرتے جائیں، ان کا کہنا ہے ’’بلوچستان میں پاکستان کے خلاف کھیل کھیلا گیا ایسی چیزوں نے ہی مشرقی بازو الگ کیا، اگر کسی جانب سے سینیٹ انتخابات کو سبوتاژ کیا جاتا ہے، کسی صوبے کی اسمبلی ٹوٹتی ہے یا کوئی رکاوٹ ڈالی جاتی ہے، ہمیں اس طرح کے ایڈونچر سے بچنا چاہئے،اب جبکہ پانچ ماہ رہ گئے ہیں ہمیں دنیا کو یہ ثابت کرنا چاہئے کہ اب دوسری دفعہ پانچ سال کی مدت مکمل کر کے انتخابات کروا رہے ہیں، اس سے پاکستان کا امیج اور وقار بڑھے گا ورنہ دنیا یہ کہے گی کہ پچھلی دفعہ آپ کا تکا لگا تھا، آپ کے اندر اسٹرکچرل مسئلہ ہے یہاں پر کبھی جمہوریت نہیں چل سکتی۔ پاکستان اور بلوچستان کے مفاد کے خلاف کھیل کھیلا گیا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والا عمل جمہوری اقدار کے منافی ہے، اقلیتی جماعت جس کے پاس پانچ نشستیں ہیں وہ اکثریت کے مقابلے میں حکومت بنا رہے ہیں، بلوچستان میں چلائی جانے والی کمپین پاکستان دشمنوں کا ایجنڈا ہے، یہ پاکستان سے دوستی نہیں، اس طرح کے کھیل سے پرہیز کرنا چاہئے، اسی طرح کے کھیلوں نے مشرقی پاکستان کو ہم سے علیحدہ کیا‘‘
یہیں سے ایسی کہانیوں کے استعاروں کی ایک دوسری جہت کا جنم ہوتا ہے، یہ جنم ہی زمینی حقیقت (Ground Reality)ہے، آپ کے استعارے، آپ کے اضطراب اور آپ کی علامتیں سوز دروں کا مقدس نمونہ ہو سکتی ہیں، پھر تاریخ بھی یحییٰ خان اور اس کے ساتھیوں کو یاد کرنے سے نہیں روک سکتی، کیوں؟‘‘
ملکوں اور قوموں کے المیے اس کیوں کو بعد از بربادی مظلوم، میں تلاش کرتے ہیں۔ کیا یحییٰ اور اس کے ساتھی جرنیلوں نے کسی کے کہنے پر کان دھرے تھے؟ کیا کبھی ان میں سے کسی ایک کو بھی شرمساری کا ایک لفظ بھی ادا کرتے سنا؟ کیا اس قومی اتحاد (پی این اے)ذوالفقار علی بھٹو کی اندھی دشمنی میں امت مسلم کا ’’پستول‘‘ کافروں کے حوالے کر کے سرینڈر کرنے والے جنرل نیازی کو اپنے اسٹیج پر نہیں بلایا تھا، کہانی کا صرف یہی ایک باب نہیں، تھوڑا سا اور آگے بڑھو، کیا 1988اور 1999کے دورانیوں میں جمہوری منتخب حکومتوں کا تسلسل برطرف نہیں کیا گیا؟ کیا غلام اسحاق خاں کو اصول و قانون کے قائداعظم کا درجہ نہیں دیا گیا، اسی ’’قائداعظم‘‘ نے آصف علی زرداری کو حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک کرپٹ افراد کا ’’باوا آدم‘‘ قرار دینے کے بعد انہی سے وفاقی وزرات کا حلف نہیں لیا تھا؟ کیا (ر) جنرل پرویز مشرف نے کبھی ’’کارگل‘‘ مانا، جنرل (ر) پرویز مشرف کو کوئی ادارہ اور عوام کا ووٹ بیرون ملک ’’فرار‘‘ ہونے سے روک سکا؟
درست ہے بلوچستان میں ریکوڈک ہے، ’’گوادر‘‘ کی اقتصادی راہ داری ہے، معدنیات کے خزانے ہیں، پاکستان کی جغرافیائی بقا صرف جمہوری پارلیمانی تسلسل میں ہے، یہ سب صحیح، پس ان سارے ’’پاکیزہ دلائل اور واقعات‘‘ کے اور ایک شے مکمل طمطراق سے ببانگ دہل للکار رہی ہے۔ جنرل (ر) یحییٰ کو اس کی موت پر 21توپوں کی سلامی! اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی!
معلوم نہیں Beginning of the endکیا ہوتا ہے، بہرحال ہم نے نادر شاہ ایرانی کی کہانی ازبر کی ہوئی ہے، اس لئے آخری سانس تک جمہوری تسلسل کی جنگ جاری رکھیں گے تاکہ قومی سطح پر بالآخر فتح مبین کا نقارہ بجایا جا سکے۔

 

تازہ ترین