• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کا پاورشو، اسٹیج تو بھرا ہوا تھا، پنڈال نہیں ،حامد میر

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں سینئر تجزیہ کار حامد میر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید نے بدھ کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا اور جس طرح بار بار اسمبلی پر لعنت بھیجی اور عمران خان نے بھی کہا کہ میں بھی اس اسمبلی پر لعنت بھیجتا ہوں ، مجھے ذاتی طور پر اس کا بڑا افسوس ہوا ہے، اسمبلی سے استعفیٰ دینا ایک سیاسی فیصلہ ہے یہ سیاسی فیصلہ کرنا شیخ رشید کا حق ہے لیکن جس طریقے سے لعنت کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا تو لعنت کے جو معنی ہیں اگر ان پر غور کریں تو اس اسمبلی میں بہت سے بزرگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، بہت سے علماء بھی ہیں، بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو لعنتی کہنا مناسب نہیں ہے، اب جب عمران خان نے بھی کہہ دیا کہ میں بھی اس پر لعنت بھیجتا ہوں ساتھ ہی بعد میں خود بھی کہا کہ پہلے میں شیخ رشید کی بات کو اپنی پارٹی کے سامنے رکھوں گا، ان سے مشورہ کروں گا اور پھر استعفیٰ دوں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عمران خان اور ان کے ساتھی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دیتے تو وہ سارے خود بھی لعنتی ہوگئے، یہ بات مجھے عجیب و غریب لگی کہ آپ اسمبلی سے استعفیٰ دیں یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے لیکن پارلیمنٹ کو لعنتی قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ تمام ارکان پارلیمنٹ لعنتی ہیں اور پارلیمنٹ میں آپ کے اپنے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، یہ عجیب و غریب قسم کی منطق سمجھ نہیں آئی کہ آپ ساڑھے چار سال کے بعد پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے رہے ہیں، ساڑھے چار سال آپ اس پارلیمنٹ میں بیٹھے رہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت صرف پی ٹی آئی میں ہی نہیں پیپلز پارٹی میں بھی ہورہی تھی، پیپلز پارٹی میں اس پر کافی بحث ہوئی لیکن بالآخر پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ ہمیں نہ سینیٹ کے انتخابات میں تاخیر کروانی چاہئے اور نہ ہی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بارے میں کوئی کام کرنا چاہئے، پی ٹی آئی کے اندر بھی یہ بحث ابھی تک چل رہی ہے، اس میں صرف پرویز خٹک ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرناچاہئے جس سے ایسا لگے کہ ہم سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی کروانا چاہتے ہیں، یہ افواہیں کافی دنوں سے چل رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی اس فیصلے پر پہنچ گئی ہے کہ ہم نے صوبائی اسمبلی نہیں توڑنی اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے سینیٹ کے انتخابات ملتوی ہوں اور اس کے بعد عام انتخابات ملتوی ہوں، لیکن پی ٹی آئی ابھی کنفیوژ ہے، پی ٹی آئی میں یہ بحث ابھی تک چل رہی ہے اسی لئے عمران خان نے کہا ہے کہ پارٹی کے سامنے شیخ رشید کا اعلان رکھوں گا پھر ہم کوئی فیصلہ کریں گے، عمران خان ذاتی طور پر استعفیٰ دینے کے حامی ہیں،عمران خان کے چند قریبی ساتھی ایم این ایز بھی استعفیٰ دینا چاہتے ہیں لیکن بہت سے دیگر ایم این ایز کا خیال ہے کہ ہم نے ابھی تک ترقیاتی فنڈز کو پوری طریقے سے استعمال نہیں کیا، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے ایم این ایز کا خیال ہے کہ ہمارے حلقوں میں ابھی مزید کام ہونے باقی ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کا بھی یہی خیال ہے کہ فی الحال استعفیٰ نہیں دینا چاہئے، اس مسئلہ پر ابھی پورا اتفاق نہیں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ پی ٹی آئی طاہر القادری کے ساتھ مل کر احتجاج کی سیاست کرنا چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی احتجاج کی طرف نہیں جائے گی، پیپلز پارٹی کی ساری توجہ اپنی انتخابی مہم پر ہے۔ حامد میر نے کہا کہ جلسہ جس میں آصف زرداری اور عمران خان نے خطاب کیا اس میں اسٹیج تو بھرا ہوا تھا لیکن پنڈال بھرا ہوا نہیں تھا، یہ کوئی کامیاب جلسہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت اس جلسے کے اسٹیج پر تو آگئی لیکن ان دونوں پارٹیوں نے اپنے ورکرز اور سپورٹرز کو موبلائز نہیں کیا اور سارا بوجھ طاہر القادری پر ڈال دیا کہ بندے انہوں نے اکٹھے کرنے ہیں، میڈیا نے اس کو ضرورت سے زیادہ ہائی لائٹ کیا اور سارا دن کرسیاں بھی دکھاتے رہے حالانکہ سب کو پتا تھا کہ آصف زرداری نے شام کوآنا ہے، اس جلسہ میں تقریریں تو اچھی اچھی ہوگئی ہیں لیکن حاضری کے لحاظ سے یہ جلسہ کوئی بہت اچھا جلسہ نہیں تھا، اسی لئے اس جلسہ سے نکلتے ہی آصف زرداری نے پیپلز پارٹی کی لاہور کی تنظیم اور وسطی پنجاب کی تنظیم سے یہ کہا ہے کہ اب لاہور میں ہم نے جلسہ کر کے دکھانا ہے، آنے والے کچھ دنوں میں پیپلز پارٹی باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں اپنا جلسہ کرے گی تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ ہم بھی لاہور میں بڑا جلسہ کرسکتے ہیں کیونکہ پانچ دسمبر کو انہوں نے اسلام آباد میں ایک بڑا جلسہ کیا تھا۔حامد میر نے بتایا کہ اس وقت پی ٹی آئی، پاکستان عوامی تحریک اور شیخ رشید جاتی امراء کی طرف لانگ مارچ کے آئیڈیے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں لیکن پیپلز پارٹی احتجاج میں فی الحال دلچسپی نہیں رکھتی ہے، سینیٹ کے انتخابات کو فی الحال کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا ہے، پیپلز پارٹی اگر سندھ اسمبلی نہیں توڑتی اور خیبرپختونخوا اسمبلی توڑ دی جاتی ہے تو پھر بھی سینیٹ کا الیکشن ہوجائے گا، بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے بارے میں خطرہ تھا کہ کہیں وہ اسمبلی توڑ کر سینیٹ کے الیکٹورل کالج کو ڈسٹرب نہ کردیں، فی الحال پیپلز پارٹی بھی یہی چاہ رہی ہے کہ سینیٹ کا الیکشن ہوجائے، بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اختر مینگل جیسے ڈیموکریٹ موجود ہیں انہوں نے عبدالقدوس بزنجو کو سپورٹ بھی کیا ہے تو ان کا بھی یہی خیال ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، ویسے بھی بلوچستان میں ن لیگ تقریباً ختم ہوگئی ہے تو سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کی مخالف پارٹیوں کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے، اس لئے پیپلز پارٹی، بی این پی مینگل جیسی جمہوریت پسند جماعتیں جو نواز شریف کے خلاف ہیں وہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی نہیں کرنا چاہتی ہیں۔ وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ دنیا میں بڑے نااہل اور بے عقل لوگ ہیں لیکن وہ بھی جانتے ہیں کہ اسمبلیاں ٹوٹنے سے کسی کو کچھ نہیں ملے گا، اسمبلیاں قائم رہیں گی تو ہی کچھ ملے گا، کوئی بھی اپنی اسمبلی توڑ کر یا استعفے دے کر سیاسی خودکشی نہیں کرے گا، سینیٹ کا الیکشن روکنے کا آپشن تقریباً ختم ہوچکا ہے، اب سینیٹ کے الیکشن میں ن لیگ کی اکثریت روکنے کے لئے کام ہورہا ہے، سینیٹ کا الیکشن روکنے والے ناکام اور مایوس ہو کر اگلے آپشن پر کام کررہے ہیں، اگر کوئی استعفے دے گا یا اسمبلی توڑے گا تو سیاسی خودکشی کرے گا۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ چاروں صوبائی اسمبلیاں ٹوٹ جائیں اور صرف قومی اسمبلی ہو پھر بھی الیکشن ہوں گے، عمران خان اتنے مقبول نہیں کہ آج خیبرپختونخوا اسمبلی توڑیں تو کل اکثریت میں ہوں گے، ضمنی انتخابات اور سرویز کے نتائج کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی کی بڑی اکثریت ہوگی، ہمیں گرانے والے آہستہ آہستہ خود گررہے ہیں، ہم سے استعفیٰ لینے والا ایک شخص تو آج خود استعفیٰ دے کر چلا گیا، عجیب رنگ بازی ہے کہ جب پتا ہے اب نہ ضمنی الیکشن ہوسکتا ہے نہ نفع اور نقصان ہے تو استعفیٰ دیدیا، سیاسی خودکشی اور مایوسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ چاہتے ہیں سسٹم رُک جائے یا ہم خودکشی کرلیں۔ طلال چوہدری نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی اچھی بات نہیں ہوئی، یہ ٹرینڈ اچھا نہیں کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والا وزیراعظم نہ رہے اور 500ووٹ لینے والے کو زور زبردستی سے وزیراعلیٰ بنادیا جائے، ایسی ہی باتوں کے خلاف ن لیگ اور نواز شریف کھڑے ہیں، پاکستان کے لوگ محسوس کرتے ہیں نواز شریف صحیح نظریے پر کھڑے ہیں، نظام کو توڑنے یا روکنے کے خواہشمند کامیاب نہیں ہوسکے،اگر ایسے حالات ہوں جب کوئی اپنا لیڈرا ٓف دی ہاؤس نہ بناسکے تو یقیناً انتخابات کروانا ہی راستہ ہے، نواز شریف کو مینڈیٹ ملا تھا کہ وہ خود وزیراعظم ہوں یا اس کا وزیراعظم ہو،شاہد خاقان عباسی نواز شریف کے ہی وزیراعظم ہیں، بلاوجہ ملک کو انتخابات سے گزارنا اچھی علامت نہیں ہے، وقت پر انتخابات ہی استحکام کی نشانی ہیں، ایسا کوئی بحران نہیں جس میں ن لیگ اکثریت کھوچکی ہو یا حکومت نہ بناسکے۔ طلال چوہدری نے کہا کہ بدھ کو پاور فل شو کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ پاورلیس شو تھا،اسٹیج پر رہنماؤں کا جلسہ لگتا تھا نیچے تو کوئی جلسہ نظر نہیں آرہا تھا، اگر کوئی اس بات پر اتنا مایوس ہے اور اس حد تک چلا گیا ہے کہ لوگوں کے گھروں تک جانا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ مان رہے ہیں کہ انتخابات میں ن لیگ کا مقابلہ نہیں ہوسکتا، ن لیگ کا مقابلہ ووٹ سے نہیں ہوسکتا، ن لیگ کی لیڈرشپ کا مقابلہ نہیں ہوسکتا، اس لئے سسٹم روکو یا مارو مرجاؤ اور توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کرو، ایسی سیاست ملک کیلئے بہتر نہیں ہوگی، ن لیگ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے، ہمارے وزیراعظم کی نااہلی بالکل غلط کی گئی، ہم نے کوئی اقدام نہیں کیا ورنہ یہ ملک ایک منٹ یا ایک لمحہ بھی شاید آگے نہ چل سکتا۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے بدھ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے انصاف کیلئے سیاسی پاور شو کیا، اس احتجاج کا مقصد وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ لینا تھا مگر جلسہ کے اختتام پرحکومت کے خلاف لائحہ عمل سامنے آنا تھا لیکن احتجاجی جلسے کا اختتام عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے استعفے کے اعلان پر ہوا، جلسہ شروع ہوا شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سے استعفے کے مطالبہ پر اور ختم ہوا شیخ رشید کے استعفے پر، شیخ رشید کے استعفے کے فیصلے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اسے سراہا بھی اور کہا کہ وہ اپنی پارٹی سے بھی اس آپشن یا اسمبلی سے استعفوں کے آپشن پر بات کریں گے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان اور آصف زرداری ایک ساتھ جلسے میں تو شریک نہیں ہوئے لیکن دونوں رہنما ن لیگ کی حکومت کے خاتمے پر متفق نظر آئے، عمران خان کی طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے بھی حکومت کے خلاف اپنے عزائم واضح کیے، نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ آصف زرداری نے بھی اسی کنٹینر سے خطاب کیا مگر جب تک وہ کنٹینر پر رہے عمران خان کنٹینر پر نہیں آئے، آصف زرداری جیسے ہی کنٹینر سے گئے تو عمران خان کچھ دیر بعد کنٹینر پر آگئے، پیپلز پارٹی کی باقی دوسری قیادت کنٹینر پر موجود تھی، قمر الزماں کائرہ، چوہدری منظور، وٹو ، اعتزاز احسن سمیت باقی قیادت موجود رہی، عمران خان آگئے اور بیٹھے رہے، باقی قیادت تقریر کرتی رہی ، مگر وہ اس وقت تک نہیں آئے جب تک آصف زرداری کنٹینر پر موجود تھے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملہ پر آصف زرداری اور عمران خان متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر تو یکجا ہیں اور متاثرین کو انصاف دلانے کے لئے حکومت کے خلاف تحریک چلارہے ہیں لیکن اس پلیٹ فارم سے ہٹ کر دونوں جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کوتنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے احتجاج کو مریم نواز نے ناکام قرار دیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حامد میر صاحب کا دعویٰ ہے کہ اسٹیج تو بھرا ہوا تھا پنڈال خالی تھا، ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ پاور فل شو کرنا چاہتے تھے پاور لیس تھا، دلچسپ بات ہے کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی یا پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے یہ دعویٰ ہی نہیں کیا گیا کہ بہت شاندار جلسہ تھا، بڑا دلچسپ معاملہ تھا کہ کوئی جلسہ ہو جس میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے کارکن مل کر شرکت کررہے ہوں، ہم نے ان دونوں جماعتوں کے کارکنوں سے ایک دوسرے کی پارٹیوں اور لیڈران سے متعلق بات کی، پی ٹی آئی کے کارکنوں سے پوچھا کہ آج مل کر جلسہ ہورہا ہے تو آپ آصف زرداری کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، پیپلز پارٹی کے کارکنان سے پوچھا کہ جب جلسہ مل کر ہورہا ہے تو آپ عمران خان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں،پیپلز پارٹی کو اسٹیج پر عمران خان کی موجودگی پر اعتراض نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی نے واضح کیا تھا کہ آصف زرداری کے ساتھ اسٹیج شیئر نہیں کیا جائے گا اس لئے دو سیشنز ہوں گے، عمران خان نے ایسا ہی کیا ، پیپلز پارٹی کے باقی سب رہنما بیٹھے تھے اور عمران خان اسٹیج پر آگئے ان کی تقریریں بھی سنیں لیکن آصف زرداری کو اپنی تقریر کر کے جانا پڑا پھر عمران خان آئے اور کنٹینر پر چڑھ گئے۔

تازہ ترین