• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیرہ سو اکیس روپے پنشن، کیا یہ کارپوریٹ سیکٹر کا ڈھانچہ ہے؟چیف جسٹس

اسلام آباد (رپورٹ :رانا مسعود حسین ) عدالت عظمی نے ’’قومی بنکوں سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی برائے نام پنشن‘‘ سے متعلق متعدد ضعیف العمر پنشنروں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران الائیڈ بنک کے صدر کی عدالتی نوٹس کے باوجود عدم حاضری پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دو لاکھ روپے جرمانہ کرتے ہوئے آج ہر حال میں ساڑھے نو بجے عدالت میں حاضر ہونے کا حکم جاری کیا ہے جبکہ جرمانہ کی رقم فاطمید فائونڈیشن میں جمع کروا کر اس کی رسید بھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بنک صدور تو30لاکھ اور 20لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں اور سابق ملازمین کی پنشن 1321روپے ماہانہ ہے، کیا یہ پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کا ڈھانچہ ہے؟ سماعت کے دوران فریقین کے وکلاء نے اپنے دلائل مکمل کرلئے ہیں۔ آج اس کیس میں امائیکس کیورائے (عدالت کا دوست)مخدوم علی خان اس حوالے سے دلائل پیش کریں گے۔ عدالت نے متاثرہ وکلاء کی وکیل عائشہ حامد کو وکلاء کے دلائل پر جواب الجواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کو از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو سینکڑوں متاثرہ ملازمین کی وکیل عائشہ حامد،بنکوں کے وکلاء ،یو بی ایل کی صدر سیما کامل ،یو بی ایل کے چیف لیگل کونسل عقیل ناصر اورحبیب بنک کے صدر ریمنڈ کوتوال پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے سیما کامل کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ کیا آپ کو اپنے سابق ملازمین کے مصائب کا کچھ اندازہ ہے ؟ آپ بنک کی صدر ہیں یا چیف ایگزیکٹو ؟انہوں نے کوئی جواب نہ دیا جس پر چیف جسٹس نے ان سے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ کو اردو آتی ہے تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں مجھے اردو آتی ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ تو انہوں نے تھوڑا ہچکچاتے ہوئے جواب دیا میری تنخواہ سے متعلق سب کو علم ہے، آپ کو بھی پتہ ہوگا۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ کی تنخواہ کا کیسے پتہ ہوسکتا ہے ؟کیا میں آپ کے بنک میں ملازم ہوں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ میری تنخواہ 30لاکھ روپے کے قریب ہے۔عدالت کے استفسار پر عقیل ناصر نے بتایا انکی تنخواہ 20لاکھ روپے ہے۔جس پر فاضل چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا بنک انتظامیہ میں کوئی انسانیت بھی ہے یا نہیں؟ آپ نے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے،کیا یہ ریٹائرڈ ملازمین نالی کے کیڑے ہیں؟ کیاآپ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے؟جس پر سیما کامل نے کہا کہ ہم اپنی تمام قانونی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانونی کے ساتھ ساتھ کچھ اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں، آپ خود تو30 لاکھ اور 20 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں اور سابق ملازمین کی پنشن 1321 روپے ماہانہ ہے، کیا یہ پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کا ڈھانچہ ہے؟ انہوں نے سیما کامل اورعقیل ناصر کو ہدایت کی کہ جب تک کیس چل رہا ہے وہ تسلسل کے ساتھ عدالت میں حاضر رہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ان کے سیٹھ باہر بیٹھے ہوں گے ،آپ کے بنک کا ٹرسٹ کیا کررہاہے ،عدالت کی ہدایت پر حبیب بنک کے صدر ریمنڈ کوتوال روسٹرم پر آئے اور عدالت کے استفسار پر بتایا کہ انکی تنخواہ 27لاکھ 75ہزار روپے ماہانہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس کیس کو بنیادی حقوق اور شہریوں کے حق زندگی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے سیماکامل کو کہا کہ آپ اپنے 30لاکھ کے ساتھ ان سابق ملازمین کو دیئے جانے والے 1321روپے بھی خود ہی رکھ لیا کریں،یہ بیکار اور فضول لوگ ہیں ،مرجائیں تو آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟اپنے بچوں کے بھی محتاج بنادیئے گئے ہیں ،یہ کہیں پر سٹینو گرافر یا ریسپشنسٹ لگ جائیں گے۔سیٹھ کو تو اپنے منافع سے غرض ہے ،آپ کٹاس راج جائیں سیٹھ نے وہاں پر بہت ہی تباہی مچائی ہے ، وہاں پر لگی سیمنٹ فیکٹریوں نے کٹاس راج کو سخت نقصان پہنچایا ہے ،سیٹھ کوبس منافع چاہیے۔قائداعظم نے اپنی پہلی تقریر میں اقلیتوں کابھی ذکرکیاتھا میں اپنے باباکی تقریر کونہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے اپنی پیداوار کو 5سو ٹن سے بڑھا کر یکدم 15سو ٹن کردیا تھا۔ جو لوگ ملک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں وہ ہمارے لئے بہت قابل قدر ہیں لیکن یہ قانون کے مطابق اپنے ملازمین کے لیے حصہ داری بھی پیداکریں۔دوران سماعت عبدالرحیم بھٹی ایڈووکیٹ نے اپنی ایک موکلہ خوشحال بی بی سے متعلق بتایا کہ اس کا مرحوم خاوند حبیب بنک کا ملازم تھا اور اسے ماہانہ پنشن 243روپے 72پیسے ملتی ہے توفاضل چیف جسٹس نے بنک کے صدر کو روسٹرم پرآنے کو کہا توان سے اٹھا نہیں جارہا تھا جس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ شاید آپ کو ʼʼچُکʼʼپڑ گئی ہے،آپ کا بینک خوشخال بی بی کوماہانہ 243روپے 72پیسے پنشن اداکررہاہے ،اتنے پیسوں سے خوشخال بی بی خوشحال کیسے رہ سکتی ہے؟ جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ گونجا۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ آپ کی اخلاقیات ہیں،243روپے پنشن لینے کے لیے تو رکشے کاکرایہ بھی اچھا خاصا خرچ ہوجاتاہوگا؟ عبدالرحیم بھٹی ایڈووکیٹ نے عدالت کو مزید بتایا کہ ان کی ایک اور موکلہ منظور فاطمہ کو ایچ بی ایل 360روپے ماہانہ پنشن دیتاہے۔جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس کی اپنی تنخواہ 30لاکھ روپے ماہانہ ہو،اسے ایسی چھوٹی چھوٹی نظر نہیں آتیں۔چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اس حوالے سے اب کوئی نئی درخواست وصول نہیں کی جائے گی ورنہ درخواست بازی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔۔یو بی ایل کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے انڈین عدالتوں کے فیصلوں کی نظائر پیش کیں تو فاضل چیف جسٹس نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ بھارت کی مثالیں نہ دیں ۔ سلمان بٹ صاحب!آپ کو بھارتی عدالتی فیصلوں سے خصوصی رومانس ہے جس پرفاضل وکیل نے کہا کہ بھارتی عدالتی فیصلوں سے رومانس آپ کے سامنے آکر ختم ہوجاتاہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انڈین سپریم کورٹ نے اپنے ملک میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اتناکام نہیں کیا ہے جتناہم کرچکے ہیں،ہم نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے تناظر میں عدالتی دائرہ اختیار کووسعت دی ہے۔
تازہ ترین