• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈز سے زیادہ خطرناک، دنیا بھر میں فضائی آلودگی ہر سال 90لاکھ افراد کی جان لے لیتی ہے،تاریخی مقامات کو بھی نقصان

لندن (جنگ نیوز) دنیابھر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے انسانی زندگی اور دنیا کے لئے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ دنیابھرمیںفضائی آلودگی سے ہرسال 90لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیںجبکہ یہ تاریخی مقامات حتیٰ کہ کرہ ارض کے لئے بھی شدیدنقصان کاباعث بن گئی ہے۔ فضائی آلودگی میں کارخانوں کے دھواں، زہریلی گیسوں سے آلودہ ہوا، مضر صحت پانی، گندے علاقے اور کام کرنے کے مقامات پر موجود آلودگی بھی شامل ہے۔ فضائی آلودگی سے مرنے والوں کی تعداد ٹی بی، ایڈز یا ملیریا کی سالانہ انفرادی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ برطانوی جریدے دی لانسٹ میں 140 بین الاقوامی سائنس دانوں کی شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک شخص کی موت آلودگی کے باعث ہوتی ہے جبکہ آلودگی سے ہلاک ہونے والوں کی 92فیصد تعداد کا تعلق غریب اقوام سے ہے جو معاشرے کی سماجی و اقتصادی تقسیم اورعدم مساوات ناانصافی کا بھی مظہر ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کو فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور انھیں اس مقصد کے لیے سالانہ 4.6ٹریلین ڈالر کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک فضائی آلودگی کے سد باب کے لیے بین الاقوامی سطح پر مشترکہ موثر اقدامات نہیں کیے جاتے ان کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سےدنیا کے تاریخی مقامات بھی خطرے کے زد میں آگئے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک ان مقامات کو فضائی آلودگی کے مضراثرات سے محفوظ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے  ۔ محققین کا کہنا ہے کہ کہ دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں کے 16 فیصد کا تعلق آلودگی سے ہے یہ تعداد جنگوں اور تشدد کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں سے 15 گنا زیادہ ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو آلودگی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کل ہلاکتوں کے 25 فیصد تک پہنچ جائے گی ۔ ماہرین نے کہا کہ فضائی آلودگی انسانی ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ خود اس سیارے کے وجود کے لیے بھی خطرہ ہے،فضائی آلودگی کی وجہ سے آسمانی بجلی گرنے سے اموات کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کئی ذرائع پر غور کررہی ہے جس میں سے ایک راستہ قانون سازی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین میں فضائی آلودگی سے ہرسال سب سے زیادہ11 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں اور وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مراعاتی پروگرامز اور کاروباری قرضوں کے نظام میں بہتری کے لیے 30 کھرب یوان (440 ارب ڈالر) خرچ کررہا ہے جس سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ چین میں حکومتی پروگرامز سے ہٹ کر بعض ادارے بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اقدامات کر رہے ہیں، سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ایسا آلہ تیار کیا ہے جو ہوائی آلودگی کو قابل استعمال ایندھن میں تبدیل کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ آلودگی کوئی آسان مسئلہ نہیں اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب تحفظ ماحول کیلئے کوشاں عالمی ماحولیاتی کونسل آئی پی سی سی نے کہا کہ زمین کے درجہ حرارت میں ممکنہ اضافے کو زیادہ سے زیادہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے ہدف کا حصول ممکن نظر نہیں آتا ۔ عالمی ماحولیاتی کونسل نے کہاکہ 66فیصد امکان یہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے متعلق اس ہدف کا حصول کوئی حقیقت پسندانہ ٹارگٹ نہیں رہا۔ یہ ہدف 2015میں پیرس میں طے پانے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے میں طے کیا گیا تھا ۔ ماہرین کے مطابق عالمی حدت میں یہ اضافہ اب ایک اعشاریہ پانچ( 1.5)اور دو ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہنے کا قوی امکان ہے۔ماحولیاتی ماہرین نےآلودگی کی صورت میں دنیا کو درپیش خطرے کے تدارک کے لئے فوری اور موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔
تازہ ترین