• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توحید کی حقیقت، مسئلہ’’الٰہ‘‘ کا بیان تحریر:قاری عبدالرشید…اولڈہم

نجات آخرت کی واحد صورت توحید ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان پہلے توحید کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے۔ توحید کی حقیقت سمجھنے کے لئے اس حقیقت کا سراغ لگانا ضروری ہے کہ جب کفار قریش ذات و صفات باری تعالیٰ کے معترف و معتقد تھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے تھے، پھر بھی قرآن نے ان کو مشرک کہا۔ توحید چونکہ جہنم سے نجات کا واحد ذریعہ ہے اور شرک دخول جہنم کا راستہ ہے، شیطان چونکہ انسان کا دشمن ازلی ہے۔ اس مردود نے لوگوں کو توحید کی حقیقت سمجھنے ہی نہ دی۔ ہمیشہ سے آدمی شرک کرکے بھی توحید کا مدعی بنا رہتا ہے اور مسئلہ الٰہ کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا، توحید کو سمجھنے میں انسانیت نے ہمیشہ یہ ٹھوکر کھائی ہے کہ لوگ اللہ کی معرفت و عبادت یا اللہ تعالیٰ کو واحد جاننے کو توحید سمجھتے رہے ہیں حالانکہ نہ تو اللہ کی معرفت توحید ہے اور نہ ہی اللہ واحد کی عبادت توحید، یہ تو انسانی فطرت کے لازمی تقاضے ہیں جنہیں انسان نے ہر دور میں پورا کیا ہے۔ اللہ کا انکار بندے کے بس کی بات نہیں لہٰذا عام کفار و مشرکین ہی نہیں بلکہ تاریخ کے ہر دور میں بڑے بڑے آئمتہ الکفر نے بھی اللہ کی ذات واحد بلکہ صفات تک کا اقرار و اعتراف کیا ہے اور عبادت الٰہی کے مراسم بھی بجا لائے۔قریش مکہ کے ساتھ تقابل کرکے ہی بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آج عامتہ المسلمین کا حال باالعموم کیا ہے؟ اس پر بھی غور و فکر اور اصلاح احوال ضروری ہے۔ قریش مکہ، کعبہ کے متولی تھے۔ حاجیوں کی خدمت بھی کرتے تھے، اللہ کے نام کی نیازیں اور حصے بھی نکالتے تھے، تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان عبادات و اعمال کے باوجود ان کا سب کچھ غارت کیوں گیا؟ غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ اگر مطلق، اللہ کی معفرت و عبادت اور نیکی و صالحیت کا نام توحید ہے تو پھر دنیا میں کبھی کوئی مشرک پیدا ہی نہیں ہوا۔ حالانکہ ابوجہل و ابو لہب اور ولید و عتبہ کا انجام دنیا و آخرت کا ہر مسلمان کو معلوم ہے۔ آج مسجدوں کی تعمیر و آبادی کی فکر کرنے والے عقیدۃ توحید کے سارے تقاضے پورے نہ کرکے بھی کامیابی و جنتی ہونے کے دعویدار اگر بن سکتے ہیں تو پھر کعبتہ اللہ کی تعمیر و آبادی اور حاجیوں کی خدمت کرنے والے کیوں ناکام و ابدی جہنمی ہیں؟ اسی طرح روضہ رسولﷺ کی زیارت کرنے والے خود کو جنت کا مستحق سمجھتے ہیں، تو خود ذات رسولﷺ کو صبح و شام دیکھنے والے جہنم کا ایندھن کیوں بنے۔ حضورﷺ کا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی قرآن کی ’’سورۃ لہب‘‘ کے اعلان کے مطابق ’’ناری‘‘ ہیں۔ اس کا مال اور اس کے نیک اعمال اس کو عذاب جہنم سے نہ بچا سکے، یہ ایک فرق ہے اور اس فرق کو سمجھے بغیر ہم مسئلہ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ اس تحریر کے بعد فون پر ای امیل میں اور اس کالم کے جواب میں شاید کسی تحریر میں مجھے یہ کہا جائے کہ نعوذ باللہ میں نے مسلمانوں کو مشرکین سے ملا دیا ہے۔ حالانکہ ایسی کوئی بات میرے ذہن میں ہے اور نہ دل میں کھٹکی ہے، میری گزارش یہی ہوگی کہ اس تحریر کو بار بار پڑھا جائے اور سمجھا جائے۔ ان اشعار پر غور کرکے اگر معاشرے میں پھیلے شرک کے خاتمے اور توحید خالص کی محنت میں ہمارا حصہ بھی پڑ جائے تو یہ بہت ہی فائدے کی چیز ہے ہم بات حضورﷺ کی سیرت و دعوت کی کررہے تھے۔ حضورؐ کی زبان مبارک سے زیادہ میٹھی کسی کی زبان نہیں ہوسکتی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ آپؐ قریش مکہ کو جب دعوت توحید دیتے تو وہ اس سے کیوں چڑتے تھے؟ آخر کس اختلاف و خلاف کی بنا پر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ لڑنے مرنے اور مارنے پر تیار ہوگئے تھے؟ اس کا جواب اگر سمجھ میں آجائے تو جان لیں کہ ہم نے توحید کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے تو یاد رکھیں مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ نمبر1۔ مثبت۔ نمبر2۔ منفی۔ مثبت پہلو میں تو کوئی وجہ نزاع و اختلاف اہل حق و اہل باطل میں نظر نہیں آتا کہ وہ بھی خدا کی ہستی کے قائل اور اس کی عبادت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی موسلا دھار بارش برسے حضرت العلامہ سید نور الحسن شاہ بخاری رحمتہ اللہ کی قبر و روح پر جنہوں نے اس مسئلہ کو بہت ہی آسان فہم کرکے لکھ دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اہل توحید اور اہل شرک میں جو شدید و بعید اختلاف تھا وہ محض نمبر2۔ یعنی مسئلہ کے منفی پہلو میں تھا۔ یعنی بات، ’’ھی‘‘ اور ’’بھی‘‘ کی تھی۔ مشرکین اللہ کو بھی مانتے تھے اور اللہ کی بھی عبادت کرتے تھے اور حضورؐ ان کو اللہ ہی کو ماننے اور اللہ ہی کی عبادت کرنے کی طرف بلاتے تھے۔ اسلام خدائے واحد کے سوا ہر معبود کی نفی کرتا ہے، لیکن مشرکین کو اللہ کی عبادت کے ساتھ دوسرے معبودان کی عبادت پر بھی اصرار تھا، سورۃ صافات پارہ نمبر23میں ہے کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر اور دیوانے کی وجہ سے چھوڑ دیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب داعی توحید صلی اللہ علیہ وسلم نے لا الٰہ الا اللہ کی ضرب سے غیر اللہ کی الوہیت و معبودیت کی نفی فرمائی تو مشرکین مکہ نے انکار و کیا، اگلی سورت صاد میں مزید اسی چیز کو کھول کر بیان کیا گیا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اس انداز میں آج بھی مسئلہ توحید کو بیان کیا جائے، تاکہ حقیقت توحید لوگوں کے دلوں میں اترے، علما کرام مثبت پہلو سے ایک قدم آگے نکلیں اور مسئلے کے منفی پہلو کو بھی بیان فرمائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے غیر اللہ کی محبت نکلے اور اللہ کی محبت آئے۔

تازہ ترین