• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کےدعوئوں کے باوجود ضلع سکھر و بالائی سندھ میں سیکڑوں اسکول فعال نہ ہوسکے

سکھر (بیورو رپورٹ) حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے کیے جانیوالے بلند و بانگ دعوؤں کے برعکس ضلع سکھر و بالائی سندھ میں سیکڑوں اسکولز تاحال غیر فعال ہیں، تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود اساتذہ کی بڑی تعداد گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے میں مصروف ہے، اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کے لئے لگائے جانیوالے بائیو میٹرک سسٹم کے ثمرات بھی عوام تک منتقل نہ ہوسکے۔ حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے صوبے بھر میں علم کی شمع گھر گھر روشن کرنے، معیار تعلیم کو بہتر بنانے اور بند پڑے اسکولوں کو فعال کرنے کے لئے کیے جانیوالے اقدامات صرف اور صرف زبانی و کلامی حد تک محدود ہیں۔ سکھر، پنوعاقل، صالح پٹ، کندھرا، سنگرار، علی واہن، بچل شاہ میانی سمیت بالائی سندھ کے مختلف چھوٹے و بڑے شہروں اور دیہاتوں میں سیکڑوں اسکولز آج بھی بند پڑے ہیں، جہاں پر تعینات اساتذہ کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں، زیادہ تر اسکولز ایسے علاقوں میں غیر فعال ہیں جو کہ انتہائی پسماندہ علاقے ہیں، ان علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں پر یا تو تالے لگے ہوئے ہیں یا پھر بااثر افراد نے قبضہ کررکھا ہے، غیر فعال اسکولز میں تعینات اساتذہ سمیت چوکیدار و دیگر غیر تدریسی عملے کو حکومت سندھ کی جانب سے ماہانہ خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں فراہم کی جاتی ہے، محکمہ تعلیم کے بعض افسران اساتذہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے غیر فعال اسکولز کو کاغذوں میں فعال دکھاکر حکومت سے تنخواہوں کی مد میں خطیر رقم وصول کررہے ہیں، حکومت سندھ کی جانب سے غیر فعال اسکولوں کو فعال بنانے اور اساتذہ کی اسکولوں میں حاضری کو یقینی بنانے کے لئے خطیر رقم خرچ کرکے بائیو میٹرک سسٹم متعارف کرایا گیا تھا مگر اس کے ثمرات بھی عوام تک منتقل نہیں ہوسکے ہیں اور اساتذہ کی ایک بڑی تعداد آج بھی گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے میں مصروف ہے۔ایک جانب ضلع سکھر سمیت بالائی سندھ کے چھوٹے و بڑے شہروں و دیہاتوں میں سیکڑوں اسکولز غیر فعال ہیں تو دوسری جانب فعال اسکولوں کا معیار تعلیم بھی انتہائی خراب ہے، حکومت سندھ اور محکمہ تعلیم کی جانب سے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے بلند و بانگ دعوؤں تو کیے جارہے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث سسٹم میں کسی بھی قسم کی بہتری نہیں آرہی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہ ہونے کے باعث صاحب حیثیت افراد اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانے پر مجبور ہیں، سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں 50ہزار روپے سے لیکر ایک لاکھ روپے ماہانہ تک ہے جبکہ نجی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ کو صرف 6ہزار روپے سے لیکر 15ہزار روپے تک ماہانہ فراہم کیے جاتے ہیں اس کے باوجود نجی اسکولوں کا معیار تعلیم سرکاری اسکولوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بہتر ہے جو کہ محکمہ تعلیم کے افسران اور اسکولوں میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سکھر کے شہری و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کی جانب سے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے ایمرجنسی تو لگادی گئی ہے مگر اس حوالے سے عملی اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں، ایمرجنسی لگانے سے معیار تعلیم بہتر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنیوالے گھوسٹ اساتذہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے دشمن ہیں، ایسے اساتذہ کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے، انہیں ملازمتوں سے برطرف کرنا چاہیے اور غیر فعال اسکولز کو فعال بنانے کے لئے حکومت سندھ کو زبانی جمع خرچ کرکے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوگا تب ہی جاکر سندھ میں معیار تعلیم بہتر ہوگا۔
تازہ ترین