• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلف میں بنیادی غلطی ہے!! خصوصی تحریر…ثروت روبینہ

جینا، مرنا اور دھرنا اگر کسی عظیم مقصد کے تحت ہو تو پھر اس میں برائی کا پہلو کیا ہے؟برائی کا پہلو تب نکلتا ہے جب مذکورہ تینوں عناصر سے مقصد کو نکال دیا جائے۔ مقصد نکل جانے کے بعد جینا، مرنا اور دھرنا بے وقعت اور پذیرائی کے اہل نہیں رہتے ۔ فیض آباد دھرنے میں محسوس ہو ا کہ اس کے کئی مقاصد تھے۔ پاکستان میں دھرنوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تمام دھرنے ہی مشکوک قرار دئیے گئے حتیٰ کہ کسانوں اور نرسوں کے معصوم دھرنوں پر بھی شکوک کا اظہار کیا گیا اور ان دھرنوں کی ذمہ داری مخالف سیاسی پارٹیوں پر ڈالی گئی عمران خان کا 126دن کا تاریخی دھرنا بھی کسی حد تک مشکوک قرار دیا گیا لیکن فیض آباد دھر نا عوام و خواص کی نظر میں سب سے زیادہ مشکوک دھرنا ٹھہرا۔ اگرچہ اس دھرنے کا بظاہر مقصد انتہائی نیک تھا خیر ہمیں دھرنے کی مشکوکیت سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی ہم کسی کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ اس دھرنے میں اعتراض کا پہلو وہ زبان اور گالم گلوچ ہے جو نیک مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اختیار کی گئی۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک گروپ اس گالی کو حلال ثابت کرنے میں سرگرم رہا کسی انسان کو اس کے ماں باپ کے گناہ کے ماحصل کے طور پر طعنہ و تشنیع کرنا کسی صورت مناسب نہیں سورہ قلم میں ہی اللہ پاک نے آپؐ کو ’’خلق عظیم‘‘کے رتبے پر فائز کیا یعنی کہ آپ ؐ کے اخلاقیات کو سراہا گیا قرآن نے جن اخلاقیات کا ذکر کیا وہ آپ ؐ میں طبعاً اور فطرتاً موجود تھیں یوں سمجھ لیں کہ قرآن آپ کی اخلاقیات پر پورا اترتا ہے اور آپ ؐ قرآن کی اخلاقیات پر پورا اترتے ہیں تو گویا آپؐ نے کبھی سخت لفظ نہیں بولا۔ گالی دینے والے کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ جب کسی کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو وہ غصے اور بے بسی کے عالم میں گالم گلوچ پر اتر آتا ہے اللہ تعالیٰ نہ تو بے بس ہیں اور نہ ہی اللہ کے پاس دلیلوں کی کمی ہے۔ اب آئیے اس حلف نامہ کی ترمیم کی طرف جس کو امریکہ کی سازش قرار دیا گیا جب اس سازش کا مطالعہ کیا گیا تو پاکستان میں شدید فکری قحط کا اندازہ ہوا اب ذرا لفظ حلف کی مصنوعی تشریح پر غور فرمائیں حلف کے معنی ہوتے ہیں قسم کسی ایسی ہستی کی جس کے آپ ماننے والے ہوں یا مذہبی کتاب کی جسکی آپ پیروی کرتے ہوں ا ردو زبان جو کہ برصغیر کی زبان ہے اس کی لغت میں حلف کے معنی قرآن اٹھوانا کے ہیں لہٰذا لفظ حلف پوری دنیا میں یکساں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ہر ملک کے باشندے اپنی مذہبی کتاب یا اپنے اپنے خدائوں کا نام لے کر حلف یعنی قسم اٹھاتے ہیں (لادین ممالک مبرا ہیں) اب آپ الیکشن نامزدگی فارم پر موجود حلف سے متعلق اس تحریر پر غور کریں جس میں ترمیم کئے جانے پر غلغلہ مچا’’میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں /کرتی ہوں کہ میں خدا کے آخری رسولؐ کو خاتم النبین مانتی ہوں۔
یہ وہ تحریر ہے کہ جسے بیان حلفی کہتے ہیں اور یہ بیان حلفی روز مرہ امور ، کورٹ کچہریوں اور تھانوں میں سڑک کنارے بیٹھے اسٹام فروش بھی لکھ رہے ہوتے ہیں اور یہ بیان حلفی تحریری اقرار نامہ ہوتا ہے اب یہ مذہبی حلف نامہ کیوں نہیں کہلاتا اس لئے کہ اس میں کسی مذہبی کتاب یا کسی ایسی ہستی کا ذکر موجود نہیں ہے جس کے آپ ماننے والے ہوں الیکشن قانون میں شامل حلف نامہ کی عبارت میں صرف یہ لکھا ہے کہ میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کس اتھارٹی کا نام لے کر حلفیہ اقرار کر رہے ہیں اس بات کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ مذہبی لحاظ سے یہ ایک غیر موزوں حلف نامہ ہے ۔ ترمیم سے پہلے اور ترمیم کے بعد دونوں حلف نامے قانونی لحاظ سے مسلمہ اور مذہبی لحاظ سے غیر مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں اللہ تعالیٰ نے خود قرآن پاک میں مختلف اشیاء کا نام لے کر قسم اٹھائی ہے مثلاًعصر کی قسم، قلم کی قسم برطانیہ میں ملکہ کے ساتھ وفاداری کے حلف میں بھی اللہ کا نام لے کر قسم اٹھائی جاتی تھی تو آپؐ سے وفاداری کا تقاضا تو یہی تھا کہ اللہ کا نام لے کر حلف دیا جاتا اور حلف نامہ کی عبارت یوں ہونی چاہئے تھی کہ ’’میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر‘‘ یا اللہ کے نام پر حلفیہ اقرار کرتا ہوں :
پرانا حلف نامہ نہ صرف غیر مذہبی بلکہ غیر جذباتی بھی تھا محض قانونی حیثیت کا حامل جبکہ ترمیم کے بعد کا حلف نامہ مذہبی تو نہیں لیکن صدق دل جیسے جملے سے آپ کے جذبات اس میں ضرور شامل ہو گئے ۔ اس حلف نامے میں رسالت ؐجیسے حساس موضوع کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن رسالت سے پہلے توحید پر ایمان ہونا چاہئے لہٰذا حلف نامہ کے ابتدائیہ میں اللہ تعالیٰ کا نام شامل کرنابہت ضروری ہے۔

تازہ ترین