• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی پیک:جب سے بلبل تو نے دو تنکے لئے
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے دھرنوں اور احتجاج سے قومیں نہیں بنتیں، ہمیں ملک کا نام روشن کرنا ہے۔ بات تو سچ ہے مگر کچھ زیادہ ’’محب وطن‘‘ افراد نے ماننی نہیں، کیونکہ انہوں نے نہ ماننے کی قسم کھائی ہے، دھرنا تو مرنا ہے، اور احتجاج بڑھیا کا چھاج، جب سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے پاکستان کے اندر باہر ایک ہنگامہ برپا ہے اور کوشش ہے کہ کسی طرح اسے سبو تاژ کیا جائے کیونکہ اس کے بننے سے پاکستان کے غریب عوام کا مقدر بدل سکتا ہے، کل اس وقت دل زور سے دھڑکا جب یہ خبر پڑھی کہ چین نے ہمارے سیاسی خلفشار کو دیکھ کر فنڈز کی فراہمی روک دی، جب سے سی پیک منصوبہ پر کام شروع ہوا ہے، حال یہ ہو گیا ہے کہ؎
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لئے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے
اور عرض کیا ہے؎
یہ جو شور سا برپا ہے سڑکوں پر
کہیں کوئی ملی بھگت ہوئی ہے ابھی
بجلی خدا خدا کر کے پوری ہوئی ہے تو گیس ادھوری ہو گئی ہے، جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو اب اسے جائز قرار دے دینا چاہئے کیونکہ یہ اب اوپر سے نیچے تک سرایت کر گئی ہے، ہر شخص غریب ہے یا امیر کرپشن کر کے ہی اپنی ضروریات پوری کر رہا ہے، جن کی ضرورت پوری ہو گئی ہے وہ مزید انبار لگانے کے چکر میں ہیں، الغرض اب ہمیں کرپشن کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اسلام اور کرپشن کو الگ کر کے چنگیزی اپنا لی ہے، اور اس کا نشہ ہی ایسا ہے کہ جب نماز پڑھ کے، عمرہ ادا کر کے، حج کر کے۔ قرآن کی تلاوت کر کے، توبہ تائب ہو کر کرپشن میں جو ایک جواز کا نشہ پیدا ہوتا ہے اس کا مزا ہی کچھ اور ہے، ہمیں ملک کا نام روشن کرنا ہے، مگر دھرنوں، جلوسوں، توڑ پھوڑ میں نہیں اپنی قبر روشن کر کے۔
٭٭٭٭
ایک انار سو بیمار
بھارت کے صوبے مدھیہ پردیش کی ایک ضلعی عدالت میں چپڑاسی کی ملازمت کے لئے پی ایچ ڈی سمیت ہزاروں امیدوار۔ مودی سرکار اپنے آرمی چیف کے پاس ان تمام امیدواروں کو بھیج دیں کیونکہ جو شخص اپنے ہمسائے کو ایٹم بم مار سکتا ہے وہ تمام ملازمت کے طلب گاروں کو بھی سنبھال لے گا، جس ملک میں غربت و بیروزگاری کا یہ عالم ہو کہ لوگ واقعتاً فاقوں سے مرتے ہوں اسے کسی کو دھمکیاں دینے، جنگ چھیڑنے کی باتیں کرنا اپنے غریب عوام کو خالی پیٹ مارنے کے مترادف ہے، پاکستان اور بھارت دونوں کے معاشی مسائل ایک جیسے ہیں دونوں طرف سیاسی مفادات اٹھانے اور حکومت کرنے کے لئے غریب عوام کی جیبوں پر ڈاکہ مارا جاتا ہے، بہتر تو یہ تھا کہ جونہی آزادی ملی تھی دونوں ہمسائے خوشحالی و ترقی کے لئے کام کرتے اور ہر حال میں امن برقرار رکھتے مگر یہ کیا کہ جیسے دو فاقوں کے ماروں نے ایک دوسرے سے نہ جانے کیا چیز مانگ لی کہ دونوں بیہوش ہو گئے، امریکہ کی موج لگی ہوئی ہے اس کا اسلحہ بھارت خرید رہا ہے، ویسے بھی امیر غریب اور پولیس کی یاری اچھی نہیں ہوتی، دونوں ہمسائے غور کریں مل بیٹھ کر اپنے بیروزگاروں فاقہ کشوں کی بہتری کے لئے باہمی روابط مضبوط کریں، ایک دوسرے سے ترقی کے منصوبوں میں تعاون کریں، پاکستان، بھارت سے ہرگز دشمنی رکھنے کا شوق نہیں رکھتا، طالع آزما بھارتی سیاستدان حکمران پاکستان دشمنی کا ہوا کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ بھارتی عوام آگے بڑھیں اپنے انتہاء پسندوں کی نہ سنیں کیونکہ وہ طالع آزمائوں سے ملے ہوئے ہیں اور ایک میز پر بیٹھنے کے لئے جن کو ووٹ دیتے ہیں دبائو ڈالیں تاکہ باہمی متنازعہ مسئلے حل ہوں اور روٹی کے پیسے اسلحہ پر خرچ نہ ہوں، امریکہ بھارت کی یاری بالآخر بھارتی عوام کے استحصال ہی پر متنج ہوتی ہے، آج اگر بھارت کے حکمران مہم جوئی اور پاکستان دشمنی کی آڑ میں پیسہ ضائع نہ کرتے تو وہاں یہ عالم نہ ہوتا کہ پی ایچ ڈی امیدوارچپراسی کی ملازمت کے لئے امیدوار ہوتے۔
٭٭٭٭
دلائل تو سب کے پاس ہیں
انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے، اور یہ اختیار بھی کہ وہ اسے خیر کے لئے استعمال کرے یا شر کے لئے، یہی وجہ ہے کہ چور ہو یا ساد سب کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں، اس لئے کسی کو یہ اختیار دینا ہو گا کہ وہ فیصلہ کرے حق اور سچ کے حق میں، یہیں سے انسانی معاشرے میں عدلیہ وجود میں آئی، اور یہ طے کر لیا گیا کہ اس کے فیصلوں کو مانا جائے گا، ظاہر ہے یہ ناگزیر ہے، اگر نہ مانا جائے تو انتشار اور جنگل کا قانون پیدا ہو گا، ہر روز ایک نیا واقعہ جنم لیتا ہے ایک نیا جرم منظر عام پر آتا ہے، اسی طرح قومیں حق رائے دہی استعمال کر کے اپنے لئے حکمران، نمائندے چنتی ہیں، جو قانون سازی کے ساتھ عوام کے بھلے کے کام کرتی ہیں، یہ سب کچھ جمہوریت کی چھتری تلے ہوتا ہے، اور اسی کو نظام کہتے ہیں جسے چلتے رہنا چاہئے ورنہ چھینا جھپٹی ہو گی، من مانی ہو گی، حق تلفی ہو گی، قوم فرداً فرداً قومی خزانے میں ایک طے شدہ قانون کے تحت اپنا حصہ ڈالتی ہے، اور جن پر اس نے اعتبار کیا ہوتا ہے وہ اس پیسے کو ملک و قوم کے بہترمفاد میں استعمال کر کے حتی الامکان لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں، قانون بنانے والے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر اپنا کام صحیح اندازمیں انجام دیں تو ترقی کا کاروان آگے بڑھتا ہے، اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سارا کاروبار زندگی اعتبار و اعتماد پر چلتا ہے، سقراط نے سزا پائی، زہر کا پیالہ منہ کو لگایا تو اطلاع ملی کہ سزا موقوف کر دی گئی ہے مگر اس نے زہر پی لیا کہ جب ریاست کے قانون کے مطابق ایک فیصلہ ہو گیا تو اسے آج نافذ نہ کیا گیا تو کل کو کسی کی بھی شخصی اہمیت کے پیش نظر سزا معاف کر دی جائے گی اور اس طرح پورے ملک میں قانون کی عملداری رک جائے گی، انسانی معاشرے میں شر کو بچانے کے لئے مذہب، شخصی اہمیت اور دیگر کئی قسم کے دلائل کی آڑ لے کر جرم کو ختم کرنے کے لئے جرم کیا جاتا ہے، مقاصد برے مگر نعرہ، نعرئہ تکبیر ہوتا ہے، ہمیں سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا۔
٭٭٭٭
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
....Oاسرائیلی وزیراعظم:اسلامی بنیاد پرستی بھارت اسرائیل کے لئے مشترکہ خطرہ،
دراصل ہماری بنیاد پرستی نہیں، اپنی بنیادوں سے پیار اور ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہونا ہی بھارت اسرائیل کے لئے خطرہ ہے، ہاں ہم اپنی بنیادوں کو کھو دیں گرا دیں یا ان کو گرانے دیں تو اسرائیل بھی خوش بھارت بھی شانت۔
....Oہزاروں برطانوی ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کا شکار، صرف ایک فرد سے 7کروڑ لوٹے یہ ایگزیکٹ وہی ہے جو ایک اسکول کھولنے کا اشتہار بھی اپنے ایک ’’گونگے‘‘ چینل سے نشر کرتا رہتا ہے، یہ ملی بھگت کی کونسی قسم ہے اور یہ اب بھگت بننے کیوں چلے ہیں۔
....Oظلم تو اس ملک میںاور بھی کئی ہوئے ہیں مگر ایک ہی ظلم کو کیوں لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، شاید اس ظلم میں مفاد مشترکہ ہے۔
....Oاسفند یار ولی:تمام ادارے نواز شریف کے پیچھے لگے ہوں یہ انصاف نہیں، تحریک انصاف ہی پیچھے پڑی ہے، شاید وہ سمجھتی ہے کہ نواز شریف اس چھتے کا نام ہے جس میں وزارت عظمیٰ کا شہد تیار ہوتا ہے۔

تازہ ترین