• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی ذہن اور سیاسی ذہن میں کیا فرق ہے، اس کا سراغ ہمیں ایئرمارشل محمد اصغرخاں کی زندگی سے ملتا ہے۔ انہوں نے اپنی کمان میں پاکستان ایئر فورس کو دنیا کی بہترین ایئر فورس بنا کر موت کے خوف سے یکسر آزاد کر دیا تھا۔ اس عظیم الشان کارنامے پر وہ ہمارے قومی ہیرو قرار پائے اور انہیں قومی پرچم میں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ اسی طرح انہوں نے پی آئی اے کو دنیا کی قابلِ فخر ایئر لائنز میں لا کھڑا کیا تھا۔ اُن کا خاندانی پس منظر نہایت شاندار اور ان کی قومی خدمات کا ریکارڈ حددرجہ تابناک اور ان کے ذاتی اوصاف بے مثال، مگر وہ اپنے فوجی ذہن کو سیاسی ذہن میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے 1969ء کے آغاز میں سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور میری تجویز پر اس کا نام ’جسٹس پارٹی‘ رکھا۔ اس سے قبل وہ مسٹر بھٹو کی گرفتاری کے بعد ایوب مخالف تحریک کی قیادت کررہے تھے۔ شدید سیاسی دباؤ کے تحت صدر ایوب خاں کو اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے فروری 1969ء میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کرنا پڑا۔ ایئر مارشل اس میں شریک ہوئے، لیکن ابتدا ہی میں صدر ایوب خاں سے لڑ جھگڑ کر وہ کانفرنس سے باہر آ گئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن اس کانفرنس میں شرکت کے لیے رہا کر کے اسلام آباد لائے گئے تھے۔ انہوں نے کمانڈر ان چیف جنرل آغا یحییٰ خاں سے خفیہ ملاقات کی اور ایوب خاں کا اعلان مسترد کر دیا جس میں اپوزیشن کے بنیادی مطالبات پر اتفاق ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں حالات قابو سے باہر ہوتے گئے جس پر کمانڈر ان چیف نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ ایئر مارشل اصغر خاں کئی ہفتے راولپنڈی ہی میں قیام پذیر رہے۔ ان کے قریبی دوست یہ تاثر دیتے رہے کہ جنرل یحییٰ خاں خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہیں گے، جبکہ صدارت کا منصب ایئرمارشل اصغرخاں کو سونپ دیں گے، مگر انہیں مایوسی ہوئی۔
چند ہی ماہ بعد ڈھاکہ میں جناب نورالامین، جناب چودھری محمد علی، جناب نوابزادہ نصراللہ خاں اور ایئر مارشل اصغرخاں کی جسٹس پارٹی پی ڈی پی میں ضم ہو گئیں۔ اس نئی جماعت میں ایئر مارشل صاحب کوئی عہدہ حاصل نہ کر سکے، چنانچہ وہ دلبرداشتہ ہو کر سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ 1970ء کے انتخابات کا اعلان ہوا، تو انہوں نے ’تحریکِ استقلال‘ کے نام سے ایک غیر سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا، لیکن خورشید حسن میر اور مولانا فتح محمد کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ بھٹو اقتدار میں آئے، تو ایئرمارشل صاحب نے تحریک استقلال کو سیاسی جماعت میں ڈھال دیا جس میں طلبہ لیڈر اور منجھے ہوئے سیاست دان جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔ یوں ایئرمارشل اصغرخاں بہت بڑی طاقت کے ساتھ سیاسی اُفق پر اُبھرے اور مسٹر بھٹو کی آمریت کے خلاف بڑی پامردی سے ڈٹ گئے، جنہوں نے سیاست دانوں کو ہتک آمیز القابات دینے کی انتہائی نازیبا روش اپنائی اور اصغر خاں پر ’آلوخاں‘ کی پھبتی کسنا شروع کر دی۔ انہی کی یہ غلط روش آج ہمارے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے، کیونکہ جناب عمران خاں اور اُن کے جیالوں نے دشنام طرازی کی انتہا کر دی ہے اور سیاست کو دھینگا مشتی اور خانہ جنگی کی علامت بنا دیا ہے۔
بھٹو کے دورِ حکومت میں ایئرماشل اصغرخاں واحد سیاسی قائد تھے جو حکومت کی چیرہ دستیوں کے خلاف جلسے کرتے، اُن پر قاتلانہ حملے ہوتے، تو وہ بہادر شخص کی طرح گولیوں کے سامنے کھڑے رہتے۔ کسی نجومی نے پیش گوئی کی تھی کہ ایئرمارشل کی گرفتاری کے بعد بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہو جائے گی، اس لیے وہ اس معاملے میں بہت محتاط رہے، مگر 1977کے ابتدائی ہفتوں میں ایئرماشل اصغرخاں اس وقت گرفتار کر لیے گئے جب وہ ایک چینی ہوٹل میں جناب مجیب الرحمٰن شامی کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔
1977ء کے انتخابات کا اعلان ہوا، تو اپوزیشن کی نو جماعتوں نے پی این اے کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کر لیا جن میں ایئرمارشل صاحب ہی سب سے تابندہ ستارے ثابت ہوئے۔ وہ جب اپنے حلقۂ انتخاب کراچی پہنچے، تو فی الواقع اُن کے جلوس میں انسانوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔ یہ اُن کی عوامی مقبولیت کی معراج تھی۔ اُنہوں نے اس وقت اعلان کیا تھا کہ قومی جرائم کی پاداش میں ہم بھٹو کو سرِعام پھانسی دیں گے۔ انتخابات کے نتائج منظم دھاندلی کی بنیاد پر پی این اے نے مسترد کر دیے اور پورے ملک میں احتجاجی مہم شروع ہو گئی۔ مسٹر بھٹو نے اپوزیشن سے مذاکرات شروع کیے جن میں بڑے مدوجزر آئے۔ جب معاہدہ طے پانے لگا، تو پیر پگاڑا اور بیگم نسیم ولی خاں کے ساتھ ایئر مارشل اصغرخاں بھٹو حکومت کے خاتمے پر اصرار کرتے رہے۔ وہ اگر سیاسی ذہن سے سوچ رہے ہوتے، تو جمہوریت کو مارشل لا کی آغوش میں جانے نہ دیتے۔ اُن کے قریبی دوست اس بار بھی یہی تاثر دیتے رہے کہ جنرل ضیاء الحق اُنہیں صدرِ مملکت کا عہدہ پیش کریں گے۔ یہ اسی طرح کی خام خیالی تھی جس خام خیالی میں آج کل عمران خاں بھٹکے ہوئے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق سے مایوس ہو کر ایئر مارشل اصغرخاں ایم آر ڈی کی تحریک میں شامل ہو گئے جو مسٹر بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے حق میں چلائی جا رہی تھی۔ اس پر وہ ایبٹ آباد میں اپنی رہائش گاہ پر نظربند کر دیے گئے۔ 1985ء کے انتخابات کا مرحلہ آیا، تو جنرل ضیاء الحق نے مشاورت کے لیے پندرہ بیس ایڈیٹر صاحبان کو دعوت دی۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد جناب مجید نظامی نے تجویز دی کہ اگر جنرل صاحب انتخابات کے بعد مارشل لا اُٹھانے کا یقین دلاتے ہیں، تو ہم جماعتی انتخابات پر اصرار نہیں کریں گے۔ جنرل صاحب نے یقین دہانی کرائی اور ایک زبانی معاہدہ طے پاگیا۔
انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ ایبٹ آباد میں ایئرمارشل اصغرخاں کی اقامت گاہ پر ہونا تھا جہاں تمام قائدین جمع تھے۔ جناب غلام مصطفیٰ جتوئی انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں تھے، جبکہ ایئرمارشل اس کے خلاف تھے۔ بے نظیر بھٹو اس لیے مخالف تھیں کہ وہ ابھی وزیراعظم بننے کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں، چنانچہ جب جلاوطن بے نظیر بھٹو نے ایئرمارشل اصغرخاں کو فون کیا، تو اُنہوں نے بتایا کہ یہاں انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ بے نظیر صاحبہ نے اس کی توثیق کر دی۔ یہ ایک غیر سیاسی فیصلہ تھا جس کا انہیں عمر بھر ملال رہا۔ اگر انتخابات کا بائیکاٹ نہ کیا جاتا، تو ہمارے ملکی حالات بڑی حد تک مختلف ہوتے اور شاید ہم جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا سے محفوظ رہتے۔ دراصل سیاسی معاملات فوجی انداز میں نہیں چلائے جا سکتے۔ سیاست میں فولادی ڈسپلن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں چین آف کمانڈ نہیں ہوتی، بلکہ سب ساتھی برابر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف بھی کرتے ہیں، لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور درمیانی راستہ نکال لیتے ہیں۔ ایئرمارشل اصغرخاں اپنے آپ کو کمانڈر سمجھتے ہوئے حکم صادر کرتے تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بے لچک رویوں سے تمام ساتھی تحریکِ استقلال چھوڑتے گئے اور اُنہیں تحریکِ انصاف میں پناہ لینا پڑی جس کے اندر لوگ کہتے ہیں کہ انصاف پسندی، شائستگی اور بردباری کے سوا اَور سب کچھ ہے۔

تازہ ترین