• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہبی آزادی کی پامالی کے نام پرامریکاکی غیرمنصفانہ نام نہاد اسپیشل واچ لسٹ

یہ افسوسناک امر ہے کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ کی زیرقیادت امریکا مسلسل پاکستان کوبے بنیاد، فرضی اور بلاجواز الزامات کے ذریعےنقصان پہنچانے کی کوشش کررہاہے، یہ الزامات مبینہ طور پرحقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دہشتگردگروہوں کومحفوظ ٹھکانےفراہم کرنےسےمتعلق ہیں۔ بعض اوقات صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’’دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ‘‘ میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے مبہم اور پریشان کن اندازمیں ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جب تمام الزامات بے بنیاد ثابت ہوگئےتواس حقیقت کےباوجود کہ سی آئی اے حقانی نیٹ ورک کو تحفظ فراہم کرنےوالوں کوجانتی ہے، اب یہ مبینہ طورپرپاکستان کی جانب سے تحفظ فراہم کرنےکا راگ الاپ رہے ہیں۔ اب یہ مکمل طور پر این ڈی ایس کی حفاظت میں ہیں، اور وہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو طول دینےکیلئےان کا استعمال کررہی ہے۔ جتنی دیر تک امریکی فوج افغانستان میں رہےگی تب تک ملک میں ڈالرزآتےرہیں گے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ یہ کھیل پاکستان کے استحکام کی قیمت پر کھیلاجارہاہے۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹ جس میں ’’جھوٹ اور دھوکےبازی‘‘ کہ الزامات عائدکئےگیےہیں، وہ امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونےکیلئےروس کےساتھ اُن کی مبینہ سازبازکےخلاف جاری تحقیقات سےتوجہ ہٹانےکےسوا کچھ نہیں۔ انھوں نےایک بارپھرپاکستان سےڈومور کامطالبہ کیاہےجبکہ امریکا مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیاء اور خاص طور پر افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی میں ناکام رہاہے۔ درحقیقت اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈومور کرنے کی باری امریکا کی ہے، یہ جنگ امریکانےشروع کی تھی اور پاکستان نے 70ہزار سے زائد شہریوں کی قربانی دے کر اور اپنی معیشت کو خطرے میں ڈال کراس کاساتھ دیا۔ امریکا کا پاکستان کو غیرمنصفانہ اور تعصبانہ طورپر مذہبی آزادی کی پامالی کی لسٹ میں شامل کرنےکااعلان پاکستان کےخلاف امریکی تعصب کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ یہ مبینہ طورپر 2002 سے یونائیٹڈا سٹیٹ کمیشن برائےبین الااقوامی مذہبی آزادی کےمسلسل مطابلہ کرنےکے باعث کیاگیا۔ یہ عجیب بات ہےکہ کمیشن مسلسل پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنے کا مطالبہ کررہاتھالیکن امریکا نے فیصلہ کرنے میں 16سال لگائے اور وہ بھی تب جب صدرڈونلڈ ٹرمپ نےپاکستان کو’’دھوکےبازاورجھوٹا‘‘ قراردیا۔ پاکستان کو یہ پوچھنےکا حق حاصل ہے کہ کسی بھی خودمختار ریاست کو واچ لسٹ میں ڈالنےکاحق امریکا کو کس نےدیا اوراس سےپاکستان کےخلاف امریکا کاکردارایک نگران کی طرح لگتاہے۔ محترم صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹھریئےاور ’’ مذہبی آزادی‘‘ کے میدان میں مجھے’’گریٹ امریکا‘‘ کی کارکردگی دیکھ لینےدیجیے۔ امریکا میں مذہبی عدم برداشت کےواقعات کی فہرست طویل ہےاس میں مشرقِ وسطیٰ کےباشندوں کے خلاف نفرت پرمبنی جرائم کی تعداد سال 2000 میں 354سے بڑھ کر سال 2001 میں 9/11 حملوں کے بعد 1501 ہوگئی۔ اوکلاہوما حملوں کےبعدعرب نژادامریکی شہریوں اورمسلمانوں کےخلاف سنگین نوعیت کےجرائم کی تعداد 200 ہوگئی؛ 2017 میں امریکی نمائندہ جووالش کی جانب سےمسلمانوں کےخلاف بیان دینےپر حملےکیےگئے، ان میں لمبارڈ میں مسلمانوں کےایک اسکول پرتیزاب کا حملہ بھی شامل ہے، الانوئے میں مسلمانوں کےقبرستان میں نفرت انگیزوال چاکنگ کی گئی؛ مساجد پر پیلٹ گنز، تیزابی بم، انڈےیاجانوروں کافضلہ پھینکا گیا؛ ٹیری جانز نےچرچ میں قرآن پاک کونذرِآتش کیا؛ 20فروری 2012 کو افغانستان میں امریکی فوجیوں نے قرآنِ پاک جلایا؛ 22سالہ ڈارون مارٹنز نےورجینیا کی 17سالہ طالبہ کو قتل کیاجسےامریکی میڈیا نے ٹریفک حادثے کا رنگ دینے کی کوشش کی، کونسل آف امریکن اسلامک افیئرز(سی اےآئی آر) کی رپورٹ کےمطابق 2015 سے2016 کےدرمیان مسلم مخالف تعصبانہ واقعات میں 57فیصد اضافہ ہوا اسی دوران مسلمانوں کےخلاف نفرت انگیز جرائم میں 44فیصد اضافہ ہوا۔ اسٹیفن بینن اور سبسچین گورکا نے مسلمان اور اسلام مخالف بیانات دیئے اور سب سے اہم صدرڈونلڈ ٹرمپ کا فوکس نیوز کے ساتھ2015 میں وہ انٹرویو جس میں انھوں نے کہاتھاکہ ’’ امریکا میں مساجد بند کرنے کے خیال پر غورکیاجائے۔‘‘ جنابِ صدر ٹرمپ ،مذہبی عدم برداشت کےمذکورہ بالااعدادوشمار آپ کے ملک کے ہیں اور یہاں مذہبی عدم برداشت کاکمیشن کہاں ہے۔ کیا آپ اسے دہرے معیار نہیں کہیں گے؟ اسلام میں امتیازی سلوک یا مسلمانوں میں مذہبی عدم برداشت پر بات کرنے سے پہلے آپ کو جان لینا چاہئیے کہ آپ کے ملک میں مسلمان مخالف بیان بازی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگرچہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہبی آزادی کو فروغ دیاجاتاہے لیکن یہاں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔ ملک بھر میں خطرات کے پیش نظر مسلم خواتین نے حجاب پہننا چھوڑ دیاہے اور مردوں نے 9/11 کے حملوں کے بعد داڑھی رکھنا چھوڑ دیاہے۔ اگرچہ 9/11حملوں میں 60 مسلمان بھی مارے گئے تھے لیکن پھر بھی مسلمانوں کو مساجد اوراسکولوں پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کوا سپیشل واچ لسٹ میں رکھتے ہوئے آپ کی انتظامیہ نے بیان دیاکہ: حکومتِ پاکستان مذہبی عدم برداشت اور مذہبی آزادی کے خلاف قانون سازی کی مرتکب ہوئی ہے۔‘‘ یہ بیان اُن نام نہاد این جی اوزکی جانب سےدی گئی افواہوں اورجعلی خبروں پرمبنی ہے، جواقلیتوں اور مذہبی تقسیم کے نام پر فنڈز جمع کرتی ہیں۔ جنابِ صدر، پاکستان کے خلاف یہ نفرت آمیز بیان جاری کرنےسےپہلےآپ کی انتظامیہ میں سےکسی کو اقلیتوں کےحقوق کےحوالےسےپاکستان کےآئین میں شامل شقوں کو پڑھنے کی زحمت کرنی چاہیئے تھی۔ تاہم آپ کی اطلاع کے لیے میں آپ کی توجہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 20 پر دلوانا چاہتاہوں جس میں ہر شہری کو کوئی بھی مذہب اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کا پرچار کرنے کا حق دیاگیاہے۔‘‘ اسی طرح آرٹیکل 36کے مطابق ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے قانونی حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے، اس میں اُن کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر پارلیمنٹ اور نوکریوں میں نمائندگی بھی شامل ہے۔ لہذا یہ واضح ہے کہ آئین بغیر کسی مذہبی اورنسلی تفریق کےتمام شہریوں کےحقوق کی حفاظت کرتاہے۔ آئین میں آرٹیکل 2A شامل کرنے سےپاکستان میں اقلیتوں کو نہ صرف بطور پاکستان کے شہری تحفظ حاصل ہوا بلکہ بطور اقلیت بھی وہ محفوظ ہوگئے۔ اب میں آپ کی اور آپ کےمحبوب دوست وزیراعظم مودی کی تفریق کے بارے میں بتاتاہوں، وہ بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف گہری نفرت رکھتےہیں۔ تاریخی طور پر بھارت خود کو ایک سیکولر ریاست ظاہر کرتاہے، یہ صرف کاغذات کی حدتک سچ ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مذہبی عدم برداشت کے حوالے سے 198 ممالک میں سے بھارت کا نمبر چوتھا ہے۔ 2015 کے بعد سےملک میں بہت سے افرادکو مذہبی عدم برداشت کے باعث تشدد کا نشانہ بنایاگیا، یہ سب نہایت معمولی معاملات کے باعث تھا۔ حال ہی میں گائے کا گوشت کھانے اوراسمگل کرنے یا ذیبح کرنےپرملک کے مختلف حصوں میں ’’گائو رکشک‘‘ یا گائے کے محافظوں‘‘ کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ ہواہے، تشدد کا شکار افراد میں مسلمان اور دلت شامل ہیں لیکن وزیراعظم اور متعلقہ وزرائےاعلیٰ دونوں ہی مسلمانوں اور دلتوں کو انتہاپسند ہندووں کےحملوں سےبچانے میں ناکام رہے ہیں۔ اپریل 2017کے بعدسےنفرت انگیزواقعات میں کم ازکم دس مسلمانوں پرتشدد کیاگیا یا انھیں قتل کردیاگیا، یہ سب ملک میں بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا کے باعث ہے۔ آپ کا کمیشن کہاں ہے اور امریکا نے بھارت کوا سپیشل واچ لسٹ میں کیوں نہیں رکھاَ؟ جون میں گجرات کی ایک خصوصی عدالت نے 2002 کے گجرات فسادات کےدوران احمدآباد کےقریب مسلم اکثریتی علاقے گلبرگ سوسائٹی میں 69افراد کےقتل میں ملوث 24افراد کومجرم قراردیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم پیپلز یونین آف ہیومن رائٹس(پی یوایچ آر) نے فسادات سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور مسلم مخالف فسادات کا قریب سے معائنہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ شائع کی، جس میں کہاگیاہے کہ گجرات بھر میں مسلمانوں کے خلاف یہ ایک یک طرفہ ظلم تھا، اس میں 500مساجد، درگاہیں اور امام بارگاہیں مسمار کردی گئیں اور اِن کی جگہ پر اکثریت کے مذہبی مقامات تعمیر کردیئے گئے۔ اس میں مزید کہاگیاہے کہ فسادات کے دوران ریاست کے وزراء ایم ایل ایزاور وی ایچ پی رہنما پولیس کنٹرول روم میں بیٹھ کر لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشددپراکسارہےتھےاورانھیں ہدایات دے رہے تھے لہذا گجرات کےمسلم مخالف فسادات کی ذمہ داری مکمل طورپرریاستی حکومت پرعائد ہوتی ہے۔ انتہاپسندوں گروپوں کو قابوکرنے میں بھارتی حکومت کی ناکامی اور چند بی جےپی رہنمائوں کی جانب سے اشتعال انگیز تقاریر کے باعث یہ تاثرپیدا ہواہے کہ بڑھتے ہوئےعدم برداشت پر رہنماوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ امریکا اسےمسلسل نظراندازکیوں کررہاہے؟ جناب صدر، جس طرح آپ نے مسلمانوں کے خلاف باربار بیانات دیئے ہیں وہ بھی اسلام کیلئے آپ کی مذہبی عدم برداشت کےزمرےمیں آتےہیں۔ 2015 میں کی گئی ایک تحقیق سے انکشاف ہوتاہے کہ امریکا میں عیسائیت مضبوط ہےاورآپ کےملک میں مسلمانوں کوواضح طورپرمذہبی عدم برداشت اورتعصب کاسامناہے۔ یہ وقت ہے کہ امریکی عوام اپنی حکومت سے جیوپولیٹیکل اسٹریٹیجز تبدیل کرنےاور دیگرممالک میں مذہبی تقسیم کابطور ہتھیاراستعمال بند کرنے کا مطالبہ کرے۔ اس سے پہلے دنیا دیکھ چکی ہےکہ عراق میں مذہبی تقسیم کو کس طرح استعمال کیاگیا، یہ ملک تاحال مذہبی تقسیم کے باعث مشکلات کاشکارہے۔ اور یہ مذہبی تقسیم ہی ہے جس کے باعث ایک خطرناک دہشت گرد تنظیم داعش وجود میں آئی۔ پاکستان ایک ایساملک ہے جہاں تمام مذاہب کوآزادی حاصل ہے اور اکادُکا واقعات پاکستان کو امریکا کی خودساختہ واچ لسٹ میں ڈالنے کا جواز نہیں ہیں، جس میں بھارت کوشدید مذہبی عدم برداشت پربھی نظر انداز کردیاجاتاہے اور آپ کے ملک میں جہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کےباعث غیرمسیحیوں کارہنامشکل ہورہاہے۔ ہم پاکستانی تمام مذاہب کا احترام کرتےہیں لیکن اپنے پیغمبرﷺ یا مذہب اسلام کےخلاف ٹیری جانز کی طرح کا کوئی بیان یا ایکشن برداشت نہیں کریں گے۔ دنیا امریکا سے مذہبی تقسیم کی بجائےبین الامذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کی توقع کرتی ہے، مذہبی تقسیم کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

.

تازہ ترین