• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی آصف علی زرداری صدر نہیں بنے تھے کہ سینیٹر شیری رحمان نے صحافیوں کے سامنے کہا سیاست سینیٹر آصف علی زرداری سے بہتر کوئی نہیں جانتامرد حر کی سیاست پر تو اعتراض نہیں تھا مگر ایک صحافی نے کہا کہ وہ سینیٹر نہیں ہیں بلکہ سابق سینیٹر ہیں۔ اس سوال کے جواب میں عالمی سیاست پر نظر رکھنے والی انتہائی سمجھدار سیاستدان شیری رحمٰن بولیں آپ نے دیکھا نہیں کہ امریکہ میں جب کوئی سینیٹر بن جاتا ہے تو پھر وہ ہمیشہ کے لئے سینیٹر کہلواتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے سینیٹر اس کے نام کا حصہ ہی بن گیا ہو، تو کیا ہمارے سینیٹر آصف علی زرداری کسی امریکی سینیٹر سے کم ہیںاب جب آصف علی زرداری اپنی صدارت مکمل کر کے گھر جا چکے ہیں، اب سینیٹر شیری رحمٰن جب بھی آصف علی زرداری کے بارے میں بات کرتی ہیں تو ہمیشہ کہتی ہیں ’’صدر زرداری‘‘ شیری رحمان نے کبھی سابق صدر نہیں کہا بلکہ وہ امریکی فارمولے کے تحت ہمیشہ صدر ہی کہتی ہیں۔
آصف علی زرداری کے یاد آنے کی دو تین وجوہات ہیں حالیہ دنوں میں ایک تقریب ہوئی ، ایک صوبے میں حکومت تبدیل ہوئی اور لاہور میں اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ ہوا۔پہلے ایوان صدر میں ہونے والی تقریب کا تذکرہ ہو جائے۔ یہ تقریب’’پیغام پاکستان ‘‘ کے سلسلے میں تھی۔ میں چار سال بعد ایوان صدر گیا، مجھے وہاں جا کر افسوس ہوا کہ جس ایوان صدر کی شان آصف علی زرداری کے عہد میں بہت زیادہ تھی اب وہ واقعی کسی کا ’’ممنون‘‘ ہے۔مجھے آصف علی زرداری کے دور صدارت میں ایوان صدر جانے کا بہت زیادہ اتفاق ہوتا تھا، وہاں ہونے والی تقریبات میں نظم و نسق ہوتا تھا مگر افسوس کہ اب وہاں نظم و ضبط کی کمی ہے۔ وہاں کے حالات دیکھ کر افسوس ہوا، بس مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہو گئی، جو میرے اور مولانا کے درمیان باتیں ہوئیں، اس کا پورا ذکر کرنا ضروری نہیں ۔ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں میرے قریبی دوست ڈاکٹر قیوم سومرو بھی وہیں تھے کیونکہ وہ صدر کے معاون خصوصی تھے، میرے ایک اور بہت پیارے دوست نوید چودھری بھی صدر پاکستان کے مشیر تھے۔ باقی رہی آصف علی زرداری کی بات تو ان سے میری ملاقات کے کئی حوالے ہیں، مثلاً محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے میری ملاقاتیں تھیں اور یہ سب کو پتہ ہے کہ محترمہ شہید، آصف علی زرداری کی شریک حیات تھیں ۔ آصف علی زرداری کے والد بزرگوار حاکم علی زرداری مرحوم سے میری بہت نیاز مندی تھی وہ جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو کبھی میں ملنے چلا جاتا تھا تو کبھی وہ مہربانی فرماتے تھے۔ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ ڈاکٹر عذرا فضل سے بھی سلام دعا ہے، یہ تمام حوالے دینے کا مقصد یہ ہے کہ تینوں شخصیات سے ملاقاتوں میں اکثر آصف علی زرداری کا ذکر رہتا تھا کیونکہ آصف زرداری کو تو مخالفین اکثر جیل میں رکھتے تھے ۔ گھر والے تو پھر گھر والے ہوتے ہیں، مجھے اچھی طر ح یاد ہے کہ ایک دن حاکم علی زرداری میرے پاس آئے تو جب آصف علی زرداری کا ذکر ہوا تو کہنے لگے ’’میر ے بیٹے کا ایک ہی بیٹا ہے مگر ان لوگوں نے بیٹے کو باپ کی شفقت سے محروم کر رکھا ہے جہاں تک میرے بیٹے کی بات ہے تو وہ دلیر اور بہادر ہے، اس کے قدموں میں لغزش نہیں آئے گی۔‘‘ ایک دن جب میں پہلی مرتبہ نیب عدالت میں گیا تو مقصد صرف آصف علی زرداری کو ملنا تھا مگر میں نے دوران ملاقات اپنے سیل فون سے آصف علی زرداری کی کچھ لوگوں سے بات کروائی، جس پر وہ بہت خوش بھی ہوئے اور اپنے کچھ ساتھیوں کو ڈانٹا بھی۔ کہنے لگے’’دیکھو یہ آیا ہے تو کئی لوگوں سے میری بات کروا دی ہے اور تمہیں کبھی یہ خیال نہ آیا‘‘ ۔
اب بات کرتے ہیں بلوچستان کی، بلوچستان میں حال ہی میں حکومت تبدیل ہوئی ہے ۔ ن لیگ اس تبدیلی کے پس منظر میں سازشیں تلاش کرتی رہ گئی اور منظر بدل گیا،اب بلوچستان میں ن لیگ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود حکومت سے محروم ہے۔ اس سارے کھیل میں آصف علی زرداری کا کیا کردار تھا اس کی وضاحت انہوں نے 17جنوری کو لاہور میں ایک جلسے میں کی۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’’میں نے بلوچستان والوں کو صرف دعا دی۔‘‘ میرے خیال میں آصف علی زرداری نے بلوچستان میں دعا نہیں ’’دوا‘‘ دی بلکہ انہوں نے ’’دوا‘‘ کے ساتھ ایک میڈیکل ڈاکٹر بھی بھجوایا، اس میڈیکل ڈاکٹر کا نام قیوم سومرو ہے۔ آپ آصف علی زرداری کی ’’دوا‘‘ کا کمال دیکھیں کہ ان کا بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی ممبر نہیں تھا مگر وہ پھر بھی کمال کر گئے۔
لاہور میں آصف علی زرداری نے جو یہ دعویٰ کیا کہ وہ جب چاہیں حکومت گرا سکتے ہیں، آصف علی زرداری کا یہ دعویٰ سچ ہے کیونکہ جب بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی ممبر نہ ہونے کی صورت میں بھی انہوں نے منظر تبدیل کر دیا تو باقی اسمبلیوں میں تو ان کی اچھی خاصی نمائندگی ہے، سندھ میں تو حکومت ہے۔ آصف علی زرداری پاکستانی سیاست کا ایسا پلیئر ہے جو جب چاہے سیاست کا منظر تبدیل کر سکتا ہے، 2014ء میں جس نے ن لیگ کی حکومت بچائی تھی اس کھلاڑی کا نام بھی آصف علی زرداری ہی تھا۔
کھیل کو تبدیل کرنے کے لئے ان سے اس وقت بھی روابط کئے گئے تھے کیونکہ اس وقت کی ایک خاص ہستی کا اب بھی آصف علی زرداری سے رابطہ ہےاس وقت معاملات طے نہیں پائے تھے۔خیر یہ اب پرانی بات ہے، نئی بات کرتے ہیں۔ نئی بات لاہور کا جلسہ ہے جس کی دھوم ہے، لاہور میں آصف علی زرداری نے واشگاف انداز میں کہا کہ ’’پاکستان کو خطرہ جاتی امراء کے مجیب الرحمن سے ہے‘‘ آپ کو یاد ہو گا کہ ابھی نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمن کی بات نہیں کی تھی مگر آصف علی زرداری کچھ عرصے سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ ’’نواز شریف گریٹر پنجاب بنانا چاہتا ہے۔‘‘
خواتین و حضرات !آصف علی زرداری جیل میں رہے، انہوں نے ملک کے خلاف کبھی بات نہیں کی، بے نظیر بھٹو جلا وطن رہیں مگر وطن سے محبت کرتی رہیں، بھٹو صاحب پھانسی چڑھ گئے مگر پاکستان زندہ باد کہتے رہے، جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں ، ملک میں افراتفری تھی، حالات میں بگاڑ تھا ، ان بگڑ ے ہوئے حالات میں بھی آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’پاکستان کھپے‘‘ یعنی ۔ پاکستان زندہ باد۔
اگر آپ آصف علی زرداری کی سیاسی مہارت کے قائل نہیں تو آپ ماضی قریب کی حکومت دیکھ لیں، کس طرح ایک تھالی میں ایم کیو ایم، اے این پی ، جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ق سمیت کئی پا رٹیاں سجی ہوئی تھیں۔ اگلے کسی کالم میں شیخ مجیب الرحمن کی پوری داستان لکھ دوں گا۔ وہی شیخ مجیب الرحمن جس کا ابتدائی نام دیوداس چکروتی تھا، یہ دیوداس چکروتی کیسے شیخ مجیب الرحمن بنا اور پھر اس نے کیا ، کیا ، کیا۔ یہ کہانی پھر سہی۔
مجھے ان حالات میں نوشی گیلانی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
کوئی مجھ کو مرا بھرپور سراپا لا دے
مرے بازو ’’مری آنکھیں‘‘ میرا چہرہ لادے.

تازہ ترین