• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسمارٹ جلسہ
ہم تو اسمارٹ نہ ہو سکے ہمارے جلسے اسمارٹ ہو گئے، مال روڈ پر شہیدوں کا لہو کیوں اتنا رنگ نہ لا سکا، کہیں شہیدوں کے خون کو بھی عوام کی طرح کام میں نہیں لایا جا رہا؟ شہداء کے لواحقین کو اسٹیج پر بٹھانا اور چیز ہے ان کی دیکھ بھال الگ، بہرحال اچھا تو نہیں ہوا اگر اچھا ہوتا تو آج ہم ان کو شہید کیوں مانتے؟ اور یہ بھی سچ ہے کہ عوام کسی بھی جماعت کے ہوں، پولیس نے سیدھی گولیاں کیوں ماریں، اور قصور میں بھی سیدھی گولیاں ماری گئیں، آخر پولیس میں اتنی جرأت کیا بھارت یا امریکہ سے آئی؟ بہرصورت یہ کیسز عدالت میں ہیں، اور اب عدلیہ بدل گئی ہے انصاف ہو کر رہے گا۔ سیاست چمکانے کے لئے کوئی اور محلول استعمال کیا جائے شہیدوں کا لہو نہیں۔ مال روڈ پر اگرچہ مال بہت خرچ کیا گیا مگر جلسہ گاہ پتلی گلی ہی ثابت ہوا، یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ کوئی بدمزگی نہیں ہونے دی گئی، سیکورٹی فول پروف تھی، شرکاء نے بھی کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی، تاجر ویسے ہی ڈر گئے تھے یا ڈرا دیئے گئے تھے، ہمارے ہاں اب کوئی نماز بھی خشوع و خضوع سے پڑھ رہا ہو امکان ہوتا ہے کہ اس سے اتنی معیاری نماز کوئی پڑھوا رہا ہے، اگرچہ ابھی ہماری نمازیں ٹھیک جا رہی ہیں مگر ہر نقل و حرکت کے پیچھے کوئی سازش ہمیں ضرور نظر آتی ہے حالانکہ ہم من حیث القوم اپنے خلاف کامیاب سازش کر چکے ہیں اور اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم نے چوکیداری ٹھیک سے کی ہوتی تو محافظ ہمیں کیوں لوٹتے؟ ہر شخص کے پاس برا سا کام نکالنے کے لئے ایک اچھا سا نعرہ ہے جسے وہ عین صحیح موقع پر استعمال کر کے اپنا ذاتی فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہم ہر اونچی، مسلسل اور فصیح و بلیغ آواز پر لبیک کہتے ہیں مگر اپنی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ دم واپسیں یاد آتا ہے فلاں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
ایک غلطی اور اس کا ازالہ
پارلیمنٹ پر لعنت، استعفوں پر غور۔ کیا شیخ مجیب الرحمٰن کو اس ملک کے اخبارات نے ڈی جیور اور ذوالفقار علی بھٹو کو ڈی فیکٹو وزیراعظم نہیں لکھا تھا؟ سچ بات کوئی کیوں نہیں بتاتا؟ قطع نظر اس کے کہ نواز شریف نے خود کو مجیب الرحمٰن سے تشبیہ دی لیکن بات تو معنوی لحاظ سے درست ہے۔ شیخ مجیب سے تو مغربی و مشرقی پاکستان کی حکومت چھینی گئی تھی ورنہ پڑھے لکھے پرانے لوگوں کو آج بھی یہ معلوم ہے کہ مجیب الرحمٰن نے اسلام آباد سے حکومت کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔ تاریخ کا ریکارڈ درست ہی ہوتا ہے ہم اپنا مطلب نکالنے کے لئے اسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کے پہلے اجلاس کے لئے پنجاب نے نہیں بنگال نے حامی بھری تھی اور پہلا اجلاس قائد اعظم کی صدارت میں ڈھاکہ میں ہوا۔ ہمیں کسی بھی سیاسی دھڑے سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن دن کو دن اور رات کو رات کہنا چاہئے۔ بنیاد کی اینٹ ٹیڑھی ہو تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی رہتی ہے اور یہ جو پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی گئی تو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ کیا اس کا کماحقہ حق ادا کیا گیا؟ اگر یہ حکمرانوں کے لئے راستے ہموار کرنے کا کام کرے گی تو کیا اس پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جائیں گے؟ البتہ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ پارلیمنٹ کا حق ادا نہ کرنے والوں کو ہار نہیں پہنائے جا سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا الفاظ کا چنائو گندا ہو گیا ہے جس سے صحیح بھی غلط نظر آتا ہے۔ اب جبکہ موجودہ حکومت کو اپنا مصلیٰ لپیٹنے میں چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ ’’جنگ ٹھنڈی پڑ گئی تو موذی گرم ہو گیا‘‘۔ بلا وجہ لعن طعن کرنے والوں کو ایک حدیث میں اچھا نہیں کہا گیا مگر جھوٹوں پر تو خود اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے ۔ جب عدلیہ کا اتنا احترام کیا جاتا ہے تو پھر اس کا اعتبار کریں، تمام مقدمات جن کے لئے یہ ہڑبونگ مچایا جا رہا ہے اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت ہیں۔ میڈیا کی بھی خیر ہو کہ اس نے بھی ایسا وار کیا کہ تسمہ لگا نہ رہا۔ بس انتظار فرمایئے، ٹھیک ہو جائے گا۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اب سب کا اعتبار کرو
جب خبریں متضاد ہو جائیں، افواہ سازی کا بازار گرم ہو جائے، عوام کا نام لے کر عوام کے دشمن عوام کا ساتھ دینے پر فخر کریں اور عوام پھر بھی اپنے پرائے کو نہ پہچانیں تو قصور عوام ہی کا نکلتا ہے نوسر بازوں کا نہیں۔ 70سالہ تجربہ بیوفائی کا کم نہیں ہوتا، اس کے باوجود عوام ایک ہی سوراخ سے ڈسواتے رہتے ہیں، فرق اتنا ہے کہ سوراخ بدل جاتا ہے سانپ بدل جاتا ہے مگر زہر موجود رہتا ہے، خوب چڑھتا ہے سر چڑھ کر بولتا ہے، یہ جادوئی زہر ہے طلسماتی سانپ ہے جو کنڈلی اور بل بدل بدل کر عوام کو ڈستا ہے، عوام اس زہر سے مرتے ہیں نہ جیتے ہیں بس گزارے موافق کھاتے ہیں پیتے ہیں، جیون کے دن بتاتے ہیں، ان کو گرانے والے ہی اٹھانے آتے ہیں کہ پھر گرا سکیں۔ عوامی بلوغت پر ہی حکمرانی سن بلوغت کو پہنچے گی، تب جا کر یہ ملک کئی طرح کی لعنتوں سے پاک ہو گا، تب ہی یہ پاکستان بنے گا۔ اس وقت جو بھی ہو رہا ہے سب کچھ کے عنوانات اچھے اور نفسِ مضمون نفسانی ہے، نام غیر کا کام اپنا، یہ ہے سیاست، دریا کے دونوں کناروں کی منجدھار میں پھنسے عوام ہی دونوں کناروں کی تمنا ہے جبکہ دریا کی مرضی کچھ اور ہے۔ ہر دھمکی کے شروع میں اگر ہوتا ہے اس لئے اگر مگر والے اپنا کام اطمینان سے جاری رکھیں، ویسے بھی یہاں کبھی کسی جرم کا سراغ نہیں ملتا، چاہے پاتال بھی چھان ماریں، جرم اس لئے نہیں پکڑا جاتا کہ غیرجرم کہیں موجود ہی نہیں اور اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں، جب ہر جگہ سفید رنگ پھیر دیا جائے تو کالے رنگ کو کون پہچانے گا۔ رات ہی رات ہو گی تو دن کی شناخت کیسے ہو گی۔ اب یا تو ہم سب برے ہیں یا سب اچھے ہیں، اچھا برا کوئی نہیں، چمن یک رنگ ہے، بے بو ہے، غم کہیں دکھائی نہیں دیتا مگر ہر سو ہے ظلم کا بھی یہی حال ہے، اس لئے کوئی کسی کو گالی، دھمکی نہ دے نہ ہی کسی کو اچھا کسی کو برا کہے، پانی اس وقت تک تھا جب جھاگ نہ تھی، سب جھاگ ہے پانی ڈوب گیا ہے، جاگ ہی ڈبوئےگا اور ڈبو دیا ہے مگر معلوم نہیں ہو گا محسوس نہ ہو گا، لکیر پیٹنے والے لاش پیٹ رہے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اپنی شکایت کے خالق بھی ہم
٭استعفوں کا وقت گزر گیا، مانگنے والوں کو دینے پڑ گئے، ایسی ذلت سے سیاست چھوڑنا بہتر ہے:ن لیگ
حالات کی یکسانیت دیکھئے کہ یہی بات دوسرے بھی کہہ سکتے، ایک ہی جرم سب کرتے ہیں الزام باری باری ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔
٭اپوزیشن جلسہ:لعنت ملامت، تکہ بوٹی اور کپڑے نوچنے کی دھمکیاں۔
مگر ہر چیز دو نمبر ہے۔ مندرجہ بالا تمام باتوں کے شروع میں اگر لگا دیا گیا تھا ،اب تو دھمکی بھی دھمکی نہ رہی کوئی ڈرے کیسے؟
٭ریاض حسین پیرزادہ پھر اپنی حکومت پر برس پڑے۔
کچھ کے لئے اپنی حکومت بھی سوتیلی ہے اس لئے وہ برستے ہیں، گرجتے ہیں، حکومت اگر بقول ریاض حسین پیرزادہ کسان دشمن ہے تو ساڑھے چار سال وہ کسان دوست تھی جو چپ رہے۔
خداوندا ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
آسمان سے جواب آتا ہے ڈھٹے کھوہ!.

تازہ ترین