• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر طرف سے یہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ مارشل لا نہیں لگ رہا ٹیکنو کریٹس کی حکومت آرہی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کسی غیر آئینی آرڈر سے وجود میں آنیوالی حکومت کو مارشل لا کہیں یا نہ کہیں، ہوگا تو وہ مارشل لا۔ بہرحال کرپشن کے اس عہد عظیم میں قحط الضمیر ملک خداداد میں پڑ چکا ہے۔
بے شک پاکستان عجیب و غریب لوگوں کا ملک ہے۔ میں جب شہباز شریف کی زبان سے یہ مصرعہ ’’اس نظامِ زر کو اب برباد ہونا چاہئے‘‘ بار بار سنتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شہبازشریف کے نزدیک شاید نظامِ زر کا کچھ اور مفہوم ہے۔ میں سابق صدر پاکستان آصف زرداری کی زبان سے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ سنتا ہوں تو میرا سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ یقیناً کچھ اور دوستوں کی بھی ایسی ہی صورت احوال ہوتی ہوگی اور وہ عمران خان کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتے ہونگے۔ سو بدقسمتی سے ان کی نگاہ جنرلوں پر جا ٹھہرتی ہوگی۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی ایک کہانی یاد آرہی ہے۔ سن لیجئے۔
شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات
اسے یہ مزار پسند آیا تھا اس نے جتنے مزار بھی اس سے پہلے دیکھے تھے یہ ان سے مختلف تھا۔ مزار کے پچھلی طرف ایک وسیع عریض مسجد تھی جس کے فلک بوس مینار بادلوں سے گفتگو کرتے تھے اور گنبدوں کے سنہرے کلس پرواز کرتے ہوئے شاہینوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ مزار کے سامنے سنگ مرمر سے بنی ہوئی بارہ دری تھی اور اسکے پیچھے ایک بہت بڑے قدیم قلعہ کا بڑا دروازہ تھا۔ مزار کے چاروں کونوں میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت سائبان تھے ہر سائبان کے تلے ایک گوشت پوست کا باوردی سپاہی ایستادہ تھا۔ ہر ایک کے پاس رائفل تھی ۔سنگین چڑھی رائفل اور ہر سپاہی کی ٹانگ کیساتھ میان بندھی ہوئی تھی جس میں خنجر اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ یہ مزا ر رات کی تنہائی میں یقیناً کسی اور طرح سے نظر آتا ہو گا مگر اس وقت تو صبح کا سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ وہ مزار کے باہر پریشان حال کھڑا تھا۔ مزار کو دیکھ کر اسے ذرا سکون کا احساس ہوا تھا۔ پچھلے کئی دنوں کے بعد اسے یہ سکون محسوس ہو رہا تھا۔ الماس کو یہ مقبرہ کچھ زیادہ پسند نہیں آیا تھا اسے مزار کے چاروں کونوں میں کھڑے سپاہی برے لگے تھے۔ وہ دونوں دیور بھابھی تھے۔ دو سو میل کا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ وہ علامہ اقبال کا مزار دیکھنے کیلئے نہیں آئے تھے انہیں شاہی قلعہ میں کسی سےملنا تھا دراصل اس قلعہ میں الماس کا شوہر قید تھا اور انکے پاس قلعہ میں متعین ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے نام کسی کا خط تھا مگر اس نے کئی گھنٹوں کے بعد ڈیوٹی پر آنا تھا وہ اسکے بارے میں پوچھ چکے تھے۔ الماس پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی اور اسکا دیور مزار پر آنے والوں لوگوں کو دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ ایسی قبر کا مالک ہونا قبر والے کو کیسا لگتا ہوگا جس پر دن بھر لوگ آتے رہتے ہیں اس نے سوچا کہ ان لوگوں سے شاید یہ قبر زیادہ زندہ ہے جن سے ملنے کوئی نہیں جاتا۔ اسے الماس کی آواز سنائی دی۔
’’انہوں نے یہ مسلح فوجی مزار کے اردگرد کیوں کھڑے کئے ہوئے ہیں یہ تو ایک شاعر کا مزار ہے اسے یہ بندوقیں دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہوگی وقاص‘‘ وقاص نے بھابھی کی طرف طنزیہ انداز میں دیکھتے ہوئے کہا ’’اس شاعر نے خود کہا تھا کہ تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔ خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا،اور سنگین تیغ کی ہی ایک قسم ہوتی۔
’’وہ پولیس والا کب تک آئے گا ہم نے جس سے ملنا ہے‘‘ الماس نے کہا’’ابھی تین گھنٹے اور انتظار کرنا ہے، تم ادھر مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ جائو تھک جائو گی‘‘ وقاص بولا اور خود مزار کے اندر چلا گیا اور فاتحہ خوانی کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے اور اقبال سے کہنے لگا ’’میں ایک شاعرکا بھائی ہوں اور میرا بھائی تمہاری قبر سے ذرا فاصلے پر شاہی قلعے میں سچ لکھنے کی سزا کاٹ رہا ہے بہت تکلیف دہ سزا۔ وہ تمہارے راستے چلنے والا شخص ہے تم نے جو خودی کا فلسفہ اسے سمجھا دیا ہے وہی اسے اس مقام پر لے آیا ہے۔ تمہارے بارے میں کسی دل جلے نے ٹھیک کہا تھا؎
ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں ہم خودی کو بلند کرتے رہے
دعا کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھوں پر دو بوندیں گریں شاید آنکھوں سے نکلی تھیں وقاص کی نگاہ قبر کے تعویز کی طرف گئی۔ پھر اس نے قبر کو دیکھا اور خیال آیا کہ ہر شخص کا یہی انجام ہے چاہے کوئی ظالم و جابر حکمران ہے یا مظلوم شاعر۔ سو اس دو روزہ زندگی کے چاند تاروں کیلئے رات سے کیا مفاہمت کرنی۔ ایک نئی ہمت اور نئے ولولے کیساتھ وہ مزار سے باہر آیا اب وہ پر سکون تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کی طرف گیا جہاں اسکی بہن بیٹھی تھی اور اسکے پاس بیٹھ کر کہنے لگا ’’میری علامہ اقبال سے بات ہوئی ہے بھائی جان کے بارے میں۔ انہوں نے مجھے فارسی کے دو شعر سنائے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا دل ایک زرد گھاسکی طرح موت کے خوف سے لرز رہا ہے۔
اپنی خودی کو پختہ تر کر... کہ اس کے بعد مرنے کے بعد بھی تُو زندہ رہے گا‘‘
الماس بولی‘’علامہ اقبال کا اگر اس ضیا نام کے ظالم اور سفاک اندھیرے سے واسطہ پڑتا تو سب فارسیاں بھول جاتے‘‘ الماس کا مایوسی اور کم ہمتی سے بھرا ہوا جواب سن کر وہ وہاں سے اٹھ گیا اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا مسجد کی طرف چل دیا، مسجد میں گھومتا پھرتا ہوا واپس وہیں آگیا یعنی علامہ اقبال کے مزار کے سامنے۔ جہاں اب درخت کے نیچے کوئی فقیر بھی آکر بیٹھ گیا تھا اس نے فقیر کی طرف دیکھا فقیر اپنی موج میں اقبال کا یہ شعر پڑھتا جا رہا تھا؎
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
وقاص کو یوں محسوس ہوا کہ فقیر نے وہ شعر جیسے وقاص کیلئے پڑھا ہے، وقاص پھر الماس کی طرف چل پڑا، اب الماس وہاں موجود نہیں تھی وقاص اسے تلاش کرنے لگا کافی تلاش کے بعد اسے الماس علامہ اقبال مزار کے اندر مل گئی جہاں وہ رو رو کر دعا کر رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد سپاہی آگئے انہوں نے سب لوگوں کو مزار سے نکال دیا کہ گورنر پنجاب کسی غیر ملکی مہمان کے ساتھ مزار اقبال پر پھول چڑھانے آرہے ہیں مزار پر پھول چڑھانے کی تقریب ہوئی اور جب گورنر پنجاب واپس جانے لگے تو الماس نے بھاگ کر ان کے پاؤں پکڑ لئے۔ سپاہی الماس کی طرف لپکے مگر اس سے پہلے غیرملکی مہمان خاتون نے بڑی شستہ اردو زبان میں الماس کو نیچے سے اٹھاتے ہوئے کہا’’مجھے بتائیے آپ کو کیا پریشانی ہے میں انہیں کہوں گی کہ آپ کو انصاف ملنا چاہئے‘‘ تو الماس نے کہا ’’میں ایک شاعر کی بیوی ہوں اور میرا شوہر سامنے قلعہ میں پولیس کے تشدد کا شکار ہے۔ اسکا جرم صرف سچ لکھنا ہے۔ اس غیر ملکی خاتون کی گہری دلچسپی کی وجہ سے الماس کا شوہر رہا کردیا گیا وہ خاتون جرمن نژاد مشتشرق این میری شمل تھیں۔

تازہ ترین