• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کے بعض حالیہ سیاسی بیانات بلاشبہ شرمناک ہیں۔ سیاست میں قبل ازیں ایسے ملفوظات پہلے کبھی سننےمیں نہ آئے تھے جواب سننے کومل رہے ہیں۔ ہر محب وطن اور ذی شعور انگشت بدنداں ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور حالات جوں کے توں رہتے ہیں تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ سیاست کیا ہوتی ہے اور سیاستدان کون؟ دنیا کے وہ ممالک جو تہذیب و تمدن پر اپنی اقدار استوارکرکے مثالی جمہوریت سے مستفید ہو رہے ہیں، ان ممالک میں سیاست کوخدمت کا ذریعہ جانا جاتا ہے بلکہ اسے درجہ ٔ عبادت پر فائز کیا جاتا ہے۔ سیاستدان کے بارے میں ان ممالک میں عمومی رائے یا تاثر یہ ہےکہ ایک ایسا شخص جو انتہائی متحمل مزاج، مدبر اور دوراندیش ہو۔ اسے وطن عزیز پر اس لئے قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں سیاست کا مطمح نظر بھی مختلف ہے اور بعض سیاستدان ان اوصاف سے بالکل تہی داماں کہ جو سیاستدانوں کا خاصہ ہوتے ہیں یا ہونے چاہئیں۔ ہماری اصل حرماں نصیبی بھی یہی ہے کہ بالعموم نہ سیاست خالص ہے نہ سیاستدان پختہ کار و دیانتدار۔ اس وقت جب ملک چو طرفہ خطرات کی زد میں ہے، ہماری سیاست اور بعض سیاستدان بدترین طرز ِ عمل کا مظاہرہ کرنے میں مشغول ہیں۔ قانون سازی کے اعلیٰ ترین ادارے پر لعنت بھیجی جارہی ہے، زبانیں بےلگام ہیں، اوے توے کا چلن عام ہے، دشنام طرازیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتے ہوئے کسی کی زبان پر بل نہیں آتا۔ الغرض ہر کوئی ہیجانی و اضطرابی کیفیت کا شکارہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اقتدار کے سوا کسی شے کی کوئی فکر نہیں، کسی کو اقتدار بچانے کی اور کسی کو اقتدار کے حصول کی، اسی کشمکش میں اخلاقیات کی حدیں پامال کی جارہی ہیں۔ ذاتیات پر رکیک حملے ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ خیال کیاجارہا ہے۔ یہ سب لیلائے اقتدار کے لئے نہیں تو پھر اسے کیا مفہوم دیاجائے؟ بدھ کومال روڈ پر ہونیوالے پاکستان عوامی تحریک کے جلسے میں عمران خان کچھ زیادہ ہی پرجوش ہوگئے اور کہا کہ ایسی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ عمران کے اس بیان کو شاید زبان کا پھسل جانا قرار دے دیا جاتا لیکن دوسرے روز جب ان کے خلاف پارلیمنٹ میں قرارداد مذمت منظور کی جارہی تھی، انہوں نے پریس کانفرنس میں برملا کہا ’’پارلیمنٹ کے لئے لعنت کا لفظ چھوٹا ہے جو لفظ کہنا چاہتا تھا وہ اس سےزیادہ سخت تھا۔‘‘ دوسری جانب قومی اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر حکومت اور اپوزیشن ارکان نے خوب لعن طعن کی اور کہا لعنت بھیجنے والے کے منہ میں خاک، بازاری، بے شرم، جس تھالی میں کھاتے اسی میں چھید کرتے ہیں۔ اسی دورا ن انجینئر بلیغ الرحمٰن کی پیش کردہ قرارداد ِ مذمت بھی منظور کی گئی۔ گویا اسمبلی میں بھی پارلیمان کے تقدس کاکچھ خیال نہ رکھا گیا۔ گالی کے جواب میں گالی دی جائے تو معاملات بگڑا ہی کرتے ہیں۔ عمران خان کے خلاف جو آئینی اقدام کیاجاسکتا ہے، کیا جاناچاہئے۔ اسمبلی کومچھلی منڈی بنانے سے گریز کی روایت ہی اس کے تقدس کو بحال کرےگی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بعض سیاستدان اپنا آپ کھو بیٹھے ہیں اور خود ان اداروں کے بارے میں بھی دریدہ دہنی سے گریز نہیں کر رہے ،جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تومعاملہ یہ ہے کہ’’زباں بگڑی توبگڑی تھی، خبر لیجئے دہن بگڑا‘‘ اب یہ خبر کون لے گا؟ کسی اور کی بجائے بہتر ہے کہ جذباتی سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور اپنا طرز ِ عمل درست کریں۔ کوئی کسی کی شہ پر کسی دوسرے پہ چڑھ نہ دوڑے کہ ایسا کرنیوالوں کا انجام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان حالات میں اصلاح احوال کی ایک ہی صورت نظر آتی ہےکہ حکومت بڑے دل کا ثبوت دے اور متحدہ اپوزیشن سے گفتگو کی داغ بیل ڈالے، چاہے تو کسی کو ضامن بنا لے۔ پاکستان کسی نئے سیاسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر سیاسی جماعتیں سینیٹ اور عام انتخابات کے بروقت انعقاد کی خواہاں ہیں تو انہیں یہی راہ اپنانا ہوگی بصورت ِ دیگر انہیں اپنے کئے پر پچھتانا بھی پڑ سکتا ہے۔

تازہ ترین