• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک ایران ٹرین سروس کی بحالی کا فیصلہ ایک جانب سیکورٹی سسٹم میں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسری طرف صدیوں پرانا روایتی تجارتی راستہ زیادہ وسعت و سہولت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت بھی اجاگر کررہا ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں کو آپس میں ملانے کی خواہش کا مظہر پاک چین اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ وطن عزیز سمیت کئی ممالک میں عملی صورت اختیار کرنے کے مراحل میں ہے۔ پاک ایران ریلوے حکام کے درمیان جمعرات کے روز اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کی کارروائی سے ظاہر ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک کے درمیان تہران اور استنبول کے درمیان کنٹینر ٹرین چلانے کے بارے میں بھی رابطے ہیں۔ جس میں پاکستان کے بہت سے شہر آجاتے ہیں۔ پاکستانی تاجر استنبول تا کوسیکوف روٹ پر کچھ تحفظات رکھتے ہیں اسلئے ایران سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ’’ایکو سیکرٹریٹ‘‘ سے کنٹینر ٹرین استنبول راستے پر چلانے کی بات کرے۔ پاکستان اور ایران صدیوں سے جس تہذیبی ورثے کے امین ہیں، اسکا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس قدیم شاہراہ ریشم کو جدید سہولتوں اور وسعتوں کیساتھ بحال کیا جائے جو نہ صرف وسطی ایشیائی ملکوں کو جنوبی ایشیا سے عوامی و تجارتی سطح پر ملانے کا ذریعہ بنی بلکہ مشرق وسطیٰ میں جانے اور وہاں سے پوری دنیا تک رسائی کا بہت بڑا وسیلہ رہی ہے۔ سلک روٹ کی بحالی اور پاک چین اقتصادی راہداری نے عالمی برادری کو وقت، اخراجات اور فاصلے کی بچت کیساتھ جو سہولت فراہم کی ہے اس میں امن و آشتی اور خوشحالی و فلاح کے بہت سے پہلو مضمر ہیں۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان میں امن بحال ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جنگوں میں مفاد تلاش کرنے کا راستہ ترک کیا جائے اور امن و دوستی کے جذبات میں سلامتی کا راستہ تلاش کیا جائے۔ عوام سے عوام کی سطح پر میل ملاپ اور تجارتی روابط کے مواقع فراہم کرکے، محبتوں کے نغمے بکھیر کے اور پرجوش میزبانی کی روایات کو فروغ دے کے ہی کرہ ارض کو زیادہ خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین