• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جان جل کر سوختہ، دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ، لب ماتم کناں ، جیسے کسی والدہ سے اُس کے بچے کو چھین لیا جائے۔ ہم برباد، نیم جان، گھائل، بحالی اور مرہم کی تدبیر سے ماورا۔ زینب کا ریپ اور قتل، اُس کی ننھی زندگی کے آخری جاں گسل لمحات میں درندگی کی شدت، اُس کے والدین کی کڑی ابتلا، سب کچھ مدغم ہوکر ایک ایسا ڈرائونا خواب بن چکا ہے جو آنکھ بند ہونے نہیں دیتا۔خون میں ڈوبی ہوئی وحشت ہر جگہ ہمارے تعاقب میں ہے ۔ کیا اس سے بڑا ستم کوئی اور بھی ہوسکتا ہے جو اس بچی کے ساتھ ہوا؟ کیا اس کا چہرہ ہمارے بچوں سے مختلف ہے؟ کیا اس سے بڑا کوئی بحرا ن ہماری ہڈیوں کے گودے کو منجمد کر سکتا ہے؟ کوئی اور ستم؟
ٹھہریں، اس سے بھی بڑ ا المیہ یہ ہے کہ واقعہ جتنا بھی اندوہناک کیوں نہ ہو، اس کا دورانیہ ہمار ے ہاں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے دل کی فضا میں غم کی پرچھائیاں گہری، لیکن عارضی ہوتی ہیں۔ ہم خواب خرامی کرتے کرتے دکھ کے سائے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر خواب خرامی ہمیں اس سے باہر لے آتی ہے ۔ ہماری آنکھیں کھلی ، لیکن بصارت سے عاجز ہیں۔ ہم کسی بھی سانحہ کی حقیقی اذیت کا احساس نہیں کرپاتے۔ یہ رویہ ہماری فطرت ِثانیہ میں راسخ ہوچکا ۔ تازہ لہو کے چھینٹے ہی اسے جگاتے ہیں۔ اور وہ بھی مختصر وقت کے لئے۔یہ رجحان تباہ کن ہے۔ صرف مسخ شدہ لاشیں، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں، بہتا ہوا خون ہی ہمارے دل میں احساس کی چنگاری بھڑکاتا ہے، لیکن دم بھر میں راکھ اُڑنے لگتی ہے۔ ہم کندھے جھٹکتے ہوئے زندگی کے معمول کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
زینب کیس میں بھی یہی ’’معمول ‘‘ دیکھنے میں آیا۔ پہلے دن ٹی وی اینکرز ماتمی لباس پہنے سراپا غم تھے، کیمرے کے سامنے آنسوئوں کے دریابہائے گئے، اپنے بچوں کی تصاویر سامنے رکھ کر غم کا احساس زندہ کیا گیا ۔ ہوسکتاہے کہ جذبات حقیقی ہوں، عین ممکن ہے لاجواب اداکاری ہو۔ اگلے روز ماتمی فضا قدرے ساز گار ، غم کی پرچھائیاں ڈھلتی ہوئی اور طبیعت اپنے دائرے میں واپس ، اور پھر میک اپ کی کلاکاری سے زندگی کی جھلک نمایاں ہونے لگی۔ ایک روز سیاست دانوں ، فنکاروں، ججوں، جنرلوں اور صحافی حضرات کا ہر لفظ سوگ کی سیاست میں ڈوبا ہوا تھا۔ اگلا دن طلوع ہوا، افق پر تابانی بکھری اور زندگی اپنی روش پر گامزن۔ وہی سیاسی کتھا ، وہی ہائو ہو، وہی کھنچا تانی۔ شریف حکومت کو تبدیل کرنے، بلوچستان میں نیا وزیر ِاعلیٰ بٹھانے ، امریکیوں کو آنکھیں دکھانے اور جوڈیشل فعالیت کے ذریعے میڈیا پر موجود رہنے کی کوشش کا جہاں آباد تھا۔ ایک روز قصور پر زینب کیس کا سکتہ طاری تھا، اگلے روز میدان قادری اور عمران کے ہاتھ تھا۔ وہ اس سانحے کو بنیاد بنا کر ایک اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کے لئے کمر کس رہے تھے ۔ ایک روز شہباز شریف سوگوار خاندان کے پاس اُس وقت گئے جب پرندے نیندپوری کرکے بیدار ہونے کا چارہ کررہے ہوتے ہیں۔ اگلے روز پنجاب حکومت ’’قصور میں ہونے والے احتجاج کا سیاسی نقصان کم کرنے ‘‘ کی کوشش میں تھی ۔
کوئی قوم بھی ہمہ وقت غم میں ڈوبی نہیں رہ سکتی، لیکن جس برق رفتاری سے ہم یہ صفحہ پلٹتے ہیں،اس کی مثال کائنات میں اور کہیں نہیں ملتی۔ جب لرزہ دینے والے واقعات مربوط، منظم اور طویل المدت اقدامات کے متقاضی ہوں تو ہم ایک بلٹ ٹرین کی مانند گزر جاتے ہیں کوئی منظر بصارت پر نقش نہیں چھوڑ پاتا۔ رفتار سب مناظر کو بصری آبگینوں میں تبدیل، اور تحلیل کردیتی ہے ایک لمحے کا جبر ہمارے عزم کو مہمیز دیتا ہے ، اگلے لمحے سکون کی برکھا برسنے لگتی ہے ۔ سوگ منانے میں ہم سے بڑھ کر کون ہوگا۔ نہیں، فراموشی میں بھی ہماراکوئی ثانی نہیں۔ ہر دولمحات کے درمیان ماندگی کا ایک وقفہ ہے۔ سو چل رہا ہے ۔
دیگر حالیہ مثالوں سے بڑھ کرقصور سانحہ اس نکتے کو ثابت کرتا ہے ۔یہ ضلع گزشتہ تین سال سے بچوں کے ساتھ درندگی ، ریپ اور اُن کے قتل کی تاریخ رکھتا ہے ۔ یہاں دور ِ حاضر میں بچوں کے منظم ریپ کے سب سے بڑے اسکینڈل نے جنم لیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، صرف دوسال پہلے ایک گروہ نے کم و بیش تین سو بچوں کو جبری طور پر فحش فلموں کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہ کوئی راز نہیں خبر پوری دنیا میں سنی گئی تھی۔ ہمارے نزدیک یہ ایک بہت سنگین معاملہ تھا، اور یقیناَ تھا۔ لیکن یہ تب کی بات ہے ۔ آج کسی کو بھی یہ جاننے میں دلچسپی نہیںکہ اُس کیس کا کیا بنا، اور اس کا ارتکاب کرنے اور گرفتار ہونے والوں کا کیا بنا؟زینب سانحے سے پہلے اسی علاقے میں ، اسی نوعیت کے کوئی درجن بھر واقعات سامنے آئے تھے ۔ اُن کی تفاصیل بھی اتنی ہی خونچکاں تھیں۔ اُن کی رپورٹس پیش کی گئیں،دستاویزات تیار کی گئیں لیکن نتیجہ صفر۔ کسی ریاستی ادارے نے کروٹ نہ لی، کسی بابا جی کی لاٹھی حرکت میں نہ آئی ۔ کسی کودرندگی کا شکار ہونے والے معصومین کے نام تک یاد نہیں۔ ان گیارہ بچوں میں سے چھ لڑکیاں تھیں۔ کسی ایک کا نام بتادیں؟ کس ضمیر کو ٹھیس پہنچی، کون سا ہیرو سامنے آیا کہ مجرموں کو للکارے اور اُنہیںکیفر کردار تک پہنچائے ؟
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور اُن کے قتل کے اعدادوشمار ہرسال سامنے آتے ہیں۔ بچوں کے اغوا کی رپورٹیں ہر سال شائع کی جاتی ہیں۔ ان کے اعدادوشمار، اگرچہ کم ظاہر کئے جاتے ہیں، ہوش اُڑا دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ خشک اعدادوشمار ہمیں متاثر نہیں کرتے ، اور نہ ہی ہم ان پر یقین کرتے ہیںتاوقتیکہ ہم کوڑے دان میںکسی کی مسخ شدہ لاش دیکھ لیں۔ کیاکسی کو یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ جس لڑکی کو ڈی آئی خان میں برہنہ کرکے گھمایا گیا، اُسے انصاف ملا یا نہیں؟یا قتل کی جانے والی کوہستانی لڑکیوں کے کیس کا کیا بنا؟ کیا ہمیں یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ کس طرح دہشت گرد بچوں کو اغوا کرکے اُن کی برین واشنگ کرتے اور پھر اُنہیں انسانی بموں کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟کیا ہم جاننے کی ہمت رکھتے ہیں کہ اے پی ایس سانحے میں مرنے والے بچوں کے والدین کو کس نہ ختم ہونے والی اذیت کا سامنا ہے ، اور اُن کے رستے زخم کیوں نہیں بھرے؟ ریاست نے عہد کیا تھا۔۔۔’’ہم نہ بھولیں گے، نہ معاف کریں گے۔‘‘
ہم نے ایک اسکول وین میں زندہ جل جانے والے پندرہ بچوں، اور اُنہیں بچانے کی کوشش کرنے والے ایک دلیر ٹیچر، کو بھی بھلا دیا۔ شاید کسی کو ہلکا سا یاد ہو؟ یہ مئی 2013 ، گجرات کا واقعہ ہے ۔ جلتی وین میں شعلوں میں لپٹے ہوئے بچوں کی تصویر نے تمام قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ گیس سے چلنے والی گاڑیوں کو ا سکول ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کرنے پر پابندی کا پرزور مطالبہ سامنے آیا۔ آج 2018 ء میں ہمارے بچے ایسی ہی گاڑیوں میں اسکول جاتے ہیں۔ اس سے بڑے سانحات پیش آئے ہیں۔ 2005ء کا قیامت خیز زلزلہ یاد ہوگا؟ چلیں بھول گئے ہیں تو میں یا دلادیتا ہوں۔ اس کا سب سے المناک پہلو یہ تھا کہ ناقص تعمیر کئے گئے ا سکولوں کی عمارتیں زلزلے کے پہلے جھٹکے سے ہی منہدم ہوگئیں اور ہزاروں طلبہ ملبے تل دب گئے۔ میری صحافتی زندگی کا سب سے دلخراش لمحہ وہ تھا جب میں باغ (آزاد جموں کشمیر) میں ایک تباہ شدہ اسکول کے پاس بستی کے دیگر افراد کے ہمراہ بے بسی سے کھڑا تھا ۔ عمارت کے ملبے تلے دب جانے والے بچے مدد کے لئے چیخ رہے تھے ۔ کوئی مدد نہ پہنچی۔ وہ سب مرگئے۔
اُس زلزلے میں ہلاک ہونے والے انیس ہزار بچوں (مجھے یقین ہے کہ اصل اعدادوشمار اس سے کہیں زیادہ ہوں گے، لیکن بحث کا موضوع یہ نہیں) میں سے زیادہ تر کی موت اسکولوں میں ہوئی تھی۔ ہم نے اُن کا سوگ منایا،اور مطالبہ کیا کہ عمارتیں تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں کو سزادی جائے ، لیکن کچھ نہ ہوا۔ کچھ اسکولوں کو عالمی تحفظ کے معیار کے مطابق تعمیر کیا گیا کیونکہ اُن کے لئے غیر ملکی عطیات اسی شرط پر ملے تھے۔ باقی ا سکولوں کو ہم نے ’حسب ِمعمول ‘‘ پہلے جیسا ہی تعمیرکردیا۔ خیبرپختونخوا کے کئی ایک حصوں میں زلزلے سے تباہ شدہ ا سکولوں کو ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ اُن کے کھنڈرات سیاسی سنگدلی اور سماجی بے حسی کا سنگ میل ہیں۔
تھر میں غذائی قلت اور بھوک سے بچوں کی اموات کی خبر نے ہمارے جذبات کو مشتعل کردیا ۔تمام ملک پیچ وتاب کھا رہا تھا۔ واقعہ کی کوریج کے دوران ہمیں ملک اور بیرونی ممالک سے بے شمار فون کالز آئیں۔ لوگ فوری مدد بھیجنے ، واٹر فلٹر پلانٹ لگانے اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے کے وعدے کررہے تھے ۔ یہ تب کی بات ہے ۔ گزرتے مہینوں نے قومی یادداشت کود ھندلا دیا۔ یاد کریں ِ 2017 ء میں تھر میں کتنی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں؟ یہ 582 تھیں، لیکن کیافرق پڑتا ہے ؟ آج بھی وہاں اسپتالوں کی وہی صورت ِحال ہے ۔ سرکاری دعوے کچھ اور ہوں گے۔ لیکن صرف تھر پر ہی فوکس کیوں؟ ملک میں غذائی قلت سے ہر سال کتنے بچے مر جاتے ہیں؟ دل تھام کر رکھیں، یہ تعداد 300,000 ہے۔
یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں۔ میںایسے افسوس ناک واقعات سے اخبار کے تمام صفحات سیاہ کرسکتا ہوں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کی رپورٹس پیش کی گئیں، ٹی وی پر بحث کی طومار باندھی گئی ، ان کا تدارک کرنے کے لئے عزم کے پیکر سامنے آئے لیکن ایک تنکا تک دہرا نہ کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم برق رفتار جذباتی رو میں بہنے کا ظرف رکھتے ہیں۔ ٹھوس حقائق پر رکنا، غورکرنا،وجوہ کا کھوج لگانا، آئندہ کے لئے روک تھام کی عملی تدبیر کرنا ہماری سرشت میں شامل نہیں۔ ممکن ہے کہ زینب کا کیس ’’معمول ‘‘ سے دیر تک زندہ رہے ،ا ور اس کے نتائج دیگر کی نسبت زیادہ گہرے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس جرم کی سنگینی بہت زیادہ ہے ، بلکہ اس لئے کہ یہ الیکشن کا سال ہے اور احباب میں اپنی اپنی قائدانہ صلاحیتیں دکھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ اگر زینب کی قبر کچھ ووٹ دے سکتی تو قصور کون سا دور ہے۔ اگر وہ شوگر کی صنعت میں ہونے والی درپردہ محاذآرائی میں ’’معاون‘‘ثابت ہوسکتی ہے ، یا اُس کی وجہ سے سول، ملٹری اور جوڈیشل قیادت کے سینے پر تمغے لگ سکتے ہیں تو کیا حرج ہے ؟اب خبر وں میں زینب نہیں، سیاست ہے ۔ جہاں تک مظلوم اور معصوم زینب کا تعلق ہے تو وہ لاکھوں دیگر جانوں کی طرح اس دھرتی کا رزق ہوئی جو صرف اُسی وقت جنبش کرتی ہے جب اس پر معصوم خون گرتا ہے ۔ لیکن پھر بھی کوئی آسماں نہیں گرتا۔

تازہ ترین