• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس نے میرے دفتر میں داخل ہونے کے بعد کرسی پر بیٹھتے ہی جوتے اور جرابیں اتاریں اور صوفے پر’’ پتھلا‘‘مار کر بیٹھ گیا۔ ابھی اسے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس نے ناگواری سے ناک سکیڑی اور پوچھا ’’کیا تمہارے کمرے میں کوئی چوہا مرا ہوا ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’اگر تمہیں بھوک لگی ہے تو کوئی حلال چیز منگوا لیتے ہیں‘‘ اس پراس نے لاحول پڑھی اور بولا’’شدید بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا ہے۔ اگر تمہارے پاس کوئی فریشنر ہے تو پلیز سپرے کرو‘‘ میرا یہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا ہے ۔ میں اپنی نشست سے اٹھا ، دفتر سے ملحق چھوٹے سے کچن میں گیا وہاں سے چمٹا اٹھایا اور چمٹے سے اس کی جرابیں پکڑ کر کھڑی کے باہر پھینک دیں اور اس کے ساتھ ہی بدبو ختم ہو گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر خجالت کے کوئی آثار نہیں تھے!
میں نے چائے منگوائی۔ اس نے میرے آفس بوائے کو مخاطب کیا اور کہا ’’یہ کپ دیکھ رہے ہو ، کبھی صاف بھی کر لیا کرو۔ ‘‘ آفس بوائے نے حیرت سے پوچھا’’کون سا کپ سر! اس نے کپ کو پکڑا تو اس کے چھوتے ہی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں ہوئے اور کپ اس کے ہاتھ سے گر گیا۔ آفس بوائے کپ دھو کر اور انہیں اچھی طرح گرم کر کے لایا تھا تاکہ جب چائے ان میں انڈیلی جائے تو وہ ٹھنڈی نہ ہو اس پر میں نے اس کی طرف دیکھا مگر مجھے اس کے چہرے پر ندامت کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی! اس نے میرے دفتر کی دیواروں پر لگی ادیبوں کی تصویریں دیکھیں تو بولا’’ان میں فیض احمد فیض، پطرس بخاری، ن م راشد اور مجید امجد کی تصویریں کیوں نہیں ہیں!
میں نے کہا ’’مگر یہاں احمد ندیم قاسمی، مشتاق احمد یوسفی، احمد فراز، انتظار حسین، شفیق الرحمن اور دوسرے پچیس تیس سرکردہ ادیبوں کی تصویریں لگی ہوئی ہیں، بولا مگر وہ تصویریں کیوں نہیں ہیں جن کی میں نے نشاندہی کی ہے۔‘‘
میں نے عرض کی یہاں ان ادیبوں کی تصویریں آویزاں ہیں جن کی تازہ تخلیق کے ساتھ ان کا تصویری پوسٹر میں نے معاصر میں شائع کیا تھا‘‘ بولا ٹھیک ہے مگر پھر تم نے اقبال کی تصویر کیوں لگائی ہے کیا تم نے ان سے بھی ان کی کوئی تازہ تخلیق حاصل کی تھی۔ یہ حملہ براہ راست میری عمر کے حوالے سے تھا مجھ پر بزرگی کی تہمت لگائی جا رہی تھی مگر میں خاموش رہا کہ ان کی تنقید کے شوق کی کچھ تو تسکین ہو ۔ اس نے اس مرتبہ کمرے پر ایک تنقیدی نظر ڈالی اور کہاں یہا ں روشنی بہت کم ہیں ایک تو تمہیں یہاں زیادہ پاور کے بلب لگانا چاہئیں اور دوسرے کھڑکی کھلی رکھنا چاہئے میں اپنی نشست سے اٹھا اس کے پاس گیا۔ اس نےاپنی بارہ نمبر کی عینک اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی میں نے یہ عینک اسے تھمائی اور کہا ۔ اب دیکھو تمہیں کمرہ بھی روشن نظر آئے گا اور کھڑکی بھی کھلی دکھائی دے گی۔ میرا خیال تھا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں وہ کچھ جھینپ جائے گا مگر وہ تو پوری طرح پر اعتماد نظر آ رہا تھا۔
اس نے کمرے میں دھرے صوفوں کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا’’ تم نے یہ صوفے کتنے میں خریدے ہیں‘‘میں نے کہا ’’جب خریدے تھے اس وقت ان کی مارکیٹ پرائس 25ہزار روپے تھی ۔ بولا یہ زیادہ سے زیادہ بیس ہزار کے ہونےچاہئیں ۔ میں نے کہا دکاندار دوست تھا ویسے بھی وہ پراناا سٹاک نکالنا چاہتا تھا۔ اس نے مارکیٹ پرائس کے برعکس پندرہ ہزار میں مجھے دئیے تھے ۔ یہ سن کر وہ شرمسار نہیں ہوا بولا پندرہ ہزار میں بھی مہنگے ہیں۔
اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا میں نے اسے مخاطب کیا اور کہا ۔ تم نے اپنی ناک دیکھی ہے اس نے گھبرا کر اپنی ناک پر ہاتھ مارا اور بولا، کیا ہوا اسے؟میں نے کہا کچھ نہیں ہوا مگر یہ ناک نہیں شرمناک ہے۔ اتنی چھوٹی ہے کہ لگتا ہے کہ تم نےکئی دفعہ کٹوائی ہے۔
اس دفعہ وہ پریشان سا نظر آیا۔ بیشتر اس کے کہ وہ اس خطرناک حملے سے سنبھلتا میں نے اس کی آنکھوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ۔ یہ تمہاری آنکھیں ہیں کہ کول ڈوڈے ہیں ۔ پتہ کرواگر لیورٹرانس پلانٹیشن اور کڈنی ٹرانس پلانٹیشن کی طرح کہیں آئی ٹرانس پلانٹیشن بھی ہو رہی ہو تو ان کی جگہ انسانی آنکھیں لگوا لو۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے حوصلے پست ہو ر ہے ہیں ۔ چنانچہ میں اور شیر ہو گیا۔
میں نے کہا ۔ یہ تمہاری ٹانگیں اتنی پتلی کیوں ہیں۔ جب تم چلتے ہو تو لگتا ہے کہ کوئی لمبی سی پنسل پر چل رہا ہے اور یہ تمہارا سرہے لگتا ہے پنسل پر ربڑ لگا ہوا ہے ۔ یار تمہیں تو سرکس میں کام کرنا چاہئے اس پر وہ روہانسا ہو گیا ۔ مجھے لگا اس نے ہتھیار پھینک دئیے ہیں ۔ میرا اندازہ صحیح تھا وہ بولا کیا تمہیں میرے جسم میں کوئی چیز متناسب محسوس نہیں ہوئی ۔ کیا میں واقعی اتنا بد شکل ہوں ۔ مجھے خدشہ ہوا کہ وہ ابھی رو پڑے گا تب میں نے اسے مخاطب کیا اور ملائمت سے کہا۔ ایسی کوئی بات نہیں تم ایک نارمل خدوخال کے انسان ہو بلکہ تم میں کئی ایسی خوبیاں ہیں جن کی تعریف کی جا سکتی ہے۔ یہ سن کر اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے کہا ، پر تم نے میری شخصیت کے صرف منفی پہلو کیوں بیان کیے۔ روشن پہلوئوں کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ میں نے جواب دیا جو بات میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا وہ تم نے خود کہہ دی ہے۔ تم جب سے میرے دفتر میں آئے ہو اسے مسلسل منفی انداز میں دیکھ رہے ہو اور یہ بھی بھول رہے ہو کہ جن خرابیوں کی تم نشاندہی کر رہے ہو وہ خرابیاں دراصل تم میں ہیں۔ بوکمرے میں نہیں تمہاری جرابوں سے آرہی تھی۔ کمرے میں اندھیرا نہیں تھا تم نے اپنی نظر کی عینک اتار رکھی تھی اور جو خرابیاں تھیں بھی اس کے ساتھ ساتھ تم خوبیوں کا بھی ذکر کر سکتے تھے ۔ مگر صرف تم نہیں ہم سب خوردبین سے ایک دوسرے کی خرابیاں تلاش کرتے رہتے ہیں ۔ ہم کبھی ایک دوسرے کو تھپکی نہیں دیتے چنانچہ ہم سب اداس رہتے ہیں ۔ تھکے تھکے سے نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ صرف ایک تھپکی تھکے ہوئے معاشرے کو تازہ دم کر سکتی ہے!

تازہ ترین