• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے مشہور فلسفی والٹیر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی قوت ہے جو آپ کو کنٹرول کر رہی ہے تو اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وہ قوت ہے جو اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں کرتی۔گوکہ یہ قول آج کل امریکہ کے لئے استعمال ہو رہاہے کیونکہ وہ صہیونی اسرائیل کے مظالم کے بارے میں کچھ نہیں سن سکتا۔لیکن پاکستان پر بھی یہ قول مکمل صادق آتا ہے۔خاص طور پران قوتوں کے حوالے سے یہ رائے عام ہے جوپاکستانی ریاست کے جمہوری تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہوتی ہیں کہ وہ اپنے اوپر کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرسکتیں۔انہی قوتوں کے حوالے سے لوگوں کو لاپتہ کرنے کے الزامات بھی گاہے گاہے سننے میں آتے ہیں ۔اس سال کے آخری مہینے میں تقریباََ سات سرگرم سیاسی کارکنان کوغائب کیا گیا جس میں لاہور کے رضا خان کو دو دسمبر کواغواکرنے کے ساتھ کراچی یونی ورسٹی کے صغیر احمد بلوچ کو بھی لاپتہ کیا گیا۔رضا خان کے بارے میںمعلوم ہوا ہے کہ وہ پاکستان و بھارت کےعوام کے درمیان دوستی کی مہم چلانے کے خواہش مند تھے ۔صغیر احمد بلوچ اور ان کے ساتھی کراچی یونی ورسٹی کے طالب علم ہیں۔کراچی یونی ورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق صغیر احمد کے بارے میں کسی قانون شکنی کی کوئی رپورٹ موجود نہیں۔لاپتہ ہونے والے صرف یہی نوجوان نہیں بلکہ سندھ ،بلوچستان،پنجاب اور خیبر پختون کے مختلف علاقوں سے بہت سے نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔اس سے قبل بھی لاہور کے حلقہ NA120جہاں انتخاب ہوئے اور مسلم لیگ کی امیدوار کلثوم نواز کامیاب ہوئیں۔ان الیکشن کے دوران مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نوازشریف نے لندن سے یہ الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ کے پانچ سرکردہ کارکنان کو نامعلوم افراد اغوا کر کے لے گئے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان و پاکستان کے بہتر تعلقات غداری کے زمرے میں آتے ہیں یااس سے کس کے مفادات کو زک پہنچتی ہے۔ دنیا کے تقریباََ تمام ماہرِ اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ علاقائی تعاون کے بغیر یہ خطہ ترقی نہیں کرسکتا۔اور بالخصوص ایک ایسی ریاست جہاںہر سال تیس لاکھ نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنا ہو اور وہ ریاست خود کچھ پیدا بھی نہیں کرتی ہو وہاں علاقائی تعاون کے بغیر ترقی کسی طور ممکن نہیں اور جو ریاست اپنے نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اس کے نوجوان بآسانی دہشت گردوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔آج ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہندوستان و پاکستان کے بہتر تعلقات کی خواہش صرف رضاخان کی آواز ہے یا یہ پورے ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی اجتماعی آواز ہے ۔
کچھ ہی دن قبل سابق آئی جی بلوچستان طارق کھوسہ نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ شہریوں کا لاپتہ ہونا 1973ء کے آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق اور عالمی کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔طارق کھوسہ مزید کہتے ہیں کہ جب وہ آئی جی بلوچستان تھے تو انہوں نے لاپتہ افراد کے معاملے کے حل کے لئے ایک جامع منصوبہ پیش کیا تھا۔ان کی تجویز میں مشتبہ افراد کو نظربند کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا بھی شامل تھا مگر ان کی تجاویز پر عمل نہیں ہوا۔اسی سلسلے میں کچھ عرصہ قبل جب سینیٹ کی لاپتہ افراد کے بارے میں قائم کی گئی کمیٹی کے اجلاس میں جہاں اور حیران کن انکشافات سامنے آئے مثلاََلاپتہ ہونے والے افراد میں کچھ خود ہی روپوش ہوجاتے ہیں وہیں سینیٹر فرحت اللہ بابرکاکہناہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ سول اور فوجی تعلقات سے منسلک ہے۔ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد پر جسٹس جاوید اقبال کمیشن کی بجائے ایک نیا کمیشن بنایا جائے جو مکمل خود مختارہو ،تاکہ وہ اس معاملے کی صحیح معنوں میں تحقیق کرسکے۔
جب کوئی ریاست اپنے نظریے کے تحفظ میں لگ جاتی ہے تو پھر اس کا ہر عمل خیالی اور افسانوی بن کر رہ جاتا ہے۔وہ ایسے کرداروں کی سرپرستی کرتی ہے جو اس کے نظریے کے خدوخال کے مطابق اس کی تبلیغ میںلگے رہتے ہیں۔حقائق کو مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں توڑ مروڑ کر بھی پیش کرتے ہیں۔اسی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کی سرزمین تنگ نظری،نفرت اور تعصب زدگی کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب کسی معاشرے میں افراد کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوتا ہے تو اس معاشرے کے عوام میں تخلیقی صلاحتیں ابھر کر سامنے آتی ہیںجو معاشرے میں نئے بیانیے کا موجب بنتی ہیں۔آج امریکہ میں نوم چومسکی اور دیگر بہت سارے دانشور امریکہ پر نہ صرف شدید تنقید کرتے ہیں بلکہ اسے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ویت نام کی جنگ کے خلاف ڈاکٹر اقبال،نوم چومسکی ،ایڈورڈسعید اور بہت سارے دانشوروں نے امریکہ کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جس سے امریکی عوام میں اس جنگ کے خلاف شعور پیدا ہوا۔لیکن ان دانشوروں کو ریاستی اداروں نے پھر بھی اغوا نہیں کیا ۔گوکہ امریکہ میںآج بھی ان کہے طور پر بہت سارے ریاستی متضاد بیانیوں کو ریاستی قوتوں نے کنٹرول کررکھا ہے ۔اسی وجہ سے وہاں کے عوامی دانشوروں کو ریاستی بیانیہ تبدیل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔مگرپھر بھی آزادیِ رائے بہرحال اپنی جگہ قائم ہے ۔ آج اکیسویں صدی کے دوران جہاں آزادیِ رائے پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے وہاں زیادہ دیر تک کسی ملک میں اس حق کو غصب کرکے نہیںرکھا جاسکتا۔اس لئے پاکستانی اداروں کو بھی جلد یا بدیر اپنی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا وگرنہ خطے کے عوام جو پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہیںمزید تباہی و بربادی میں مبتلا ہوجائیںگے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ آخر ریاست کیوں کوئی متضاد بیانیے کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتی ۔میرے خیال میں جب ایک نظریاتی ریاست میں سرکاری بیانیے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔تووہاں جب کوئی سماجی گروپ اس بیانیے کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے فوراََغدار وطن کی اصطلاح پیش کردی جاتی ہے ۔والٹیر کا ایک بہت مشہور قول ہے ’’گوکہ میں آپ کے خیالات سے متفق نہیں ہوں لیکن میں آپ کی آزادی رائے کا دفاع اپنی جان کا نذرانہ دے کر بھی کروں گا‘‘آج ہمیں اپنے معاشرے کو آزادیِ رائے کے حوالے سے اس قول کے تابع بنانا ہوگا کیوں کہ اس سماج کی ترقی صرف اور صرف عوام میں تخلیقی و تحقیقی شعور سے ہی ممکن ہے اور وہ شعور رائے کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں۔ہندوپاک دونوں اطراف کی ریاستوںکو نفرتوں،کدورتوں سے پاک معاشرہ قائم کرنے اور بہترتعلقات کے لئے سوچنا ہوگاکیونکہ اس خطے کی ترقی و خوشحالی اسی میں ہے ۔اسی کے لئے فیض نے کہا تھا!
الم نصیبوں ،جگر فگاروں
کی صبح افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے.

تازہ ترین