• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی عدلیہ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے دو ٹوک الفاظ میں یہ صراحت کرکے کہ پارلیمنٹ ہی سپریم یعنی ملک کا اعلیٰ ترین اور اہم ترین ادارہ ہے، بلاشبہ جمہوری نظام کی ایک بدیہی حقیقت کی نشان دہی کی ہے ۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ روز کٹاس راج مندر کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہی۔چیف جسٹس نے متروکہ وقف املاک سے متعلق اس مقدمے میں ادارے کے سربراہ کی عدم حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی کچھ بھی کہے لیکن ہمارے لیے پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔تاہم انہوں نے پارلیمنٹ سمیت مختلف محکموں اور اداروں کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں بنھانے میں کوتاہیوں پر بھی گرفت کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت وہ جگہ ہے جہاں آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔ چیف جسٹس نے متروکہ وقف املاک کے سربراہ کے حوالے سے سرکاری اداروں میں سیاسی اقربا پروری کے خاتمے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہ واضح کیا کہ عدلیہ ان طور طریقوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی اورجہاں ادارے کام نہیں کریں گے وہاں ہم اپنا کام کریں گے پھر اس پر دائرہ کار میں مداخلت کا شکوہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس جس محنت، تندہی اور جاں فشانی سے عوامی مشکلات اور مسائل کے حل،صحت اور تعلیم کی سہولتوں کی بہتری اور شہریوں کی حق تلفیوں کے ازالے کے لیے کام کررہے ہیں اس کا اندازہ ان کی جانب سے متعدد اہم قومی اور عوامی معاملات میں از خود لیے جانے والے نوٹسوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے جمعہ کے روز دو مزید معاملات کا از خود نوٹس لیا جو پوری قوم کی تشویش اور فکرمندی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک اگزیکٹ نامی ادارے کی جانب سے عالمی سطح پر جعلی ڈگریوں کا کاروبار ہے اور دوسرا معاملہ کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں دہشت گرد قرار دے کر مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ کا ہے۔ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایگزیکٹ کی جانب سے جعلی ڈگریوں کے عالمی اسکینڈل کے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں دوبارہ سامنے آنے پر فاضل چیف جسٹس نے ازخود اس کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائرکٹر جنرل ایف آئی اے سے اس معاملے کی مفصل رپورٹ طلب کرلی ہے۔ قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملے میں بھی چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے سات دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔چیف جسٹس کے ان اقدامات سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ ہمارے بیشتر ادارے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو صحت، تعلیم اور امن عامہ سے متعلق معاملات میں آئے دن ازخود نوٹس لینا پڑتا ہے۔ پارلیمنٹ بلاشبہ ملک کا اعلیٰ ترین آئینی ادارہ ہے ، آئین کی تشکیل اور قانون سازی اسی کام کام ہے۔ عدالتیں بھی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین اور قانون کی محافظ اور ان کے تحت فیصلے کرنے کی پابند ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قومی معاملات میں پارلیمنٹ کا کردار ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں جس قدر فعال اور مؤثر ہوتا ہے، ہم ابھی اس معیار سے بہت پیچھے ہیں۔اس کی ایک وجہ ملک میں بار بار پارلیمانی نظام کی بساط کا لپیٹا جانا اور طاقت کے اصل منبع کا کہیں اور واقع ہونا ہے جبکہ خود حکمرانوں اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے بھی پارلیمنٹ کو بالعموم وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ آئین کا تقاضا ہے کہ قومی اہمیت کے تمام معاملات اور پالیسی سازی اور فیصلے پارلیمنٹ ہی میں ہوں، وزراء اور حزب اقتدار و حزب اختلاف کے تمام ارکان پارلیمنٹ اجلاسوں میں اپنی حاضری یقینی بنائیں، قومی اہمیت کے تمام معاملات پر پارلیمنٹ میں سیرحاصل گفتگو کا اہتمام کیا جائے اورحل طلب مسائل کو غیر ضروری تاخیر اور لیت و لعل کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے تاکہ نہ عدلیہ کو از خود نوٹسوں کے ذریعے معاملات کے حل کے لیے مداخلت نہ کرنی پڑے نہ کسی اور جانب سے پارلیمنٹ کے خلاف کسی اقدام کا کوئی جواز پیدا ہوسکے۔

تازہ ترین