• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منو بھائی طویل صحافتی کیریئر کے بعد راہیٔ ملک عدم ہوئے۔ منو بھائی کے بعد اگلے دن کا سورج بالکل اسی طرح مشرق سے طلوع ہوا اور اسی طرح مغرب میں غروب ہوگیا جیسے ہر روز ہوتاہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ منو بھائی نے 50سال تک انگلیاں خون دل میں ڈبو کر جو کالم لکھے، ان سے کچھ بھی نہیں بدلا۔ یہ ملک منو بھائی کے لکھنے سے پہلے بھی ایساتھا اورمنو بھائی کے جانے کے بعد بھی ایسا ہی رہے گا؟ مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں، منوبھائی نے بہت کچھ بدلا۔ انسانی احترام، انسان دوستی، جمہوریت پسندی اور ترقی پسندی کے لئے ان کی جدوجہد پورے معاشرے کی اجتماعی جدوجہد بھی ہے، جس کے ثمرات آج ہمیں مل رہے ہیں۔
اگر دنیا میں صحافت کو انسانی شکل وجسم میں آنے کا موقع ملتا تو وہ ہو بہو منو بھائی کی شکل اور قدوقامت کی ہوتی۔ وہ مجسم صحافت اور مجسم انسانیت تھے، صحافت و ادب کے ہر شعبے پر ان کی مکمل دسترس تھی، خبر بنانے سے لیکر اداریہ لکھنے تک اور فیچر سے لیکر کالم نگاری تک ہر صنف صحافت پر انہیں مکمل عبور تھا۔ شاعری اور پھر ڈرامہ نگاری میں نئے ریکارڈ بنائے مگر ان سب سے بڑھ کر وہ اپنی فقیری، قلندری، درویشی اور صبر،قناعت کی وجہ سے بغض و غضب اور غصے و عناد سے خالی، آئیڈیل انسان تھے۔ جمہوریت ،انسان دوستی اور ترقی پسندی کے جس راستے پر وہ زندگی بھر چلے وہی اس معاشرے کی فلاح کا واحد راستہ ہے۔
یاد رکھیں منزل کی طرف اٹھایا گیا ہر صحیح قدم اسے قریب تر کرتا ہے۔ منو بھائی اور پاکستانی معاشرے کی 50سالہ جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں گئی، ان پچاس برسوں میں معاشرے میں بھرپور شعور آیا ہے۔ کہاں آج سے 50سال پہلے کا پسماندہ پاکستان اور کہاں آج کا ترقی پذیر ملک، آج ہر شخص اپنے حقوق اورآزادی کی بات کرتا ہے۔ پاکستان میں مڈل کلاس کا تناسب بھارت سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ تعلیم کا شوق روز افزوں ہے، ہر یونیورسٹی میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، صحت کے حوالے سے حکومتوں پر دبائو بڑھ رہا ہے، لوڈشیڈنگ جو ناقابل حل بحران لگتا تھا اس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے ناسور پر نشتر زنی آخری مراحل میں ہے۔ آجا کے سیاسی اتار چڑھائو کا معاملہ ہے کہ ٹھیک نہیں ہورہا، اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہتی ہے، جمہوریت دو قدم آگے چلتی ہے تو اسے ایک قدم مزید پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے مگر منوبھائی! آپ کی محبوبہ جمہوریت کو جتنا مارا جائے، جتنا بھی کمزور کیا جائے بالآخر یہی جیتے گی، تاریخ کا یہ فیصلہ دیوار پر صاف لکھا نظر آرہا ہے۔ صرف 117سال پہلے دنیا میں ایک بھی جمہوری ملک نہیں تھا اور آج دنیا کے دو تہائی ملک جمہوری اور صرف ایک تہائی غیر جمہوری ہیں۔ ہر آنے والے سال میں کوئی نہ کوئی نیا ملک جمہوریت کے دامن میں پناہ لیتا ہے۔ اس لئے کچھ بھی ہو جائے، بالآخر جیت جمہوریت ہی کی ہوگی۔
منو بھائی ایک عہدتھا، فیض کا عہد، بھٹو کا عہد، احمد ندیم قاسمی کا عہد، اشفاق احمد کا عہد، منیر نیازی اور احمد فراز کا عہد، عباس اطہر اور آئی اے رحمان کا عہد، اس عہد نے مقہور و مجبور عوام کی جمہوری اورمعاشی آزادی کا خواب دیکھا تھا۔ اس عہد کے شعور نے غریبوں، مزدوروں، کسانوں اورنچلے طبقات کے حقوق کا جھنڈا اٹھایا اور کسی حد تک 1970ء میں کامیابی حاصل کر لی جب سب کو Adult Franchiseیعنی ہر شخص کو ووٹ کا حق مل گیا۔ 1973ء کا آئین بنا، دو مارشل لا آئے مگر انہیں پھر سے اسی آئین کو بحال کر کے جانا پڑا۔ منو بھائی اور ان کے عہد کے لوگ میر تقی میرکے اس شعر کے مصداق معاشرے کے سدھار میں اپنا حصہ ڈال کر گئے؎
بارے دنیا میں رہو، غم زدہ یاد شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
منو بھائی کا عہد تمام ہوا۔ وہ لوئر کلاس کی جدوجہد کا دور تھا۔ اب مڈل کلاس کی جدوجہد کا عہد ہے۔ اس عہد کی اقدار، طور طریقے اور ہیں، پچھلے عہد کے اور تھے۔ پاکستانی مڈل کلاس سیاست، معیشت اور اقتدار میں اپنا حصہ مانگ رہی ہے، مگر اقتدار میں بیٹھی اشرافیہ جگہ خالی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ ہی وہ کش مکش ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو گرفتار کر رکھا ہے۔ اسی کش مکش سے اہل اقتدار کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوگا اور پرانی اشرافیہ کو زوال ہوگا۔
منو بھائی اس دنیا سے چلے گئے مگر وہ شعور اورانسان دوستی کے ایسے دیئے جلا گئے جو تادیر جلتے رہیں گے، خواتین کے حقوق، تھیلیسیمیا اور خون کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کی دیکھ بھال اور سیاسی طور پر ہمیشہ راہ حق پر چلنا، ان کی وہ روایات ہیں جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔ بلھے شاہ نے ایسے لوگوں کے لئے ہی تو کہا’’گور پیا کوئی ہور‘‘۔ خواتین کے حقوق کے لئے انہوں نے تب آواز بلند کی جب یہ آئوٹ آف فیشن ہوتا تھا۔ ان کی اس حوالے سے کمٹ منٹ اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں ’’اعزازی عورت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ سندس فائونڈیشن میں بچوں کی خدمت کو تو انہوں نے زندگی کا اوڑھنا اور بچھونا ہی بنا لیا تھا، سندس میں بچوں کے ساتھ ہوتے تو چہرہ کھلا ہوا ہوتا، اس پر بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ ہوتی، بچے ان کے ساتھ یوں گھل مل جاتے جیسے ان کے نانا یا دادا ہوں۔ ان کا یہی رویہ اپنے فیملی فرینڈز کے ساتھ تھا۔ بچوں کا، بیوی کا حال چال پوچھتے ہر ایک کے بارے میں باخبر رہتے۔
منو بھائی کے بہت بڑے جنازے نے زمانے کی بے وفائی کے بارے میں میرے ایک اشتباہ کو ختم کردیا کئی بڑے صحافی یا لیڈر دنیا سے گئے تو جنازے ان کے بڑے ناموں کی نسبت بہت چھوٹے تھے لیکن منو بھائی کے جنازے پر تو جیسے شہر امڈ پڑا وہ وہ صورتیں نظر آئیں جنہیں دیکھے برسوں بیت چکے تھے، ثابت یہ ہوا کہ آپ انسانوں سے خلوص دل سے محبت کرینگے تو جواباً مخلوق خدا بھی آپ سے محبت کرے گی، جنازے میں شامل ہر شخص کے پاس منو بھائی اور اس کے اپنے تعلق کی ایک نہ ایک کہانی موجود تھی، یہ جنازہ لاہور کے انسان دوستوں اور جمہوریت پسندوں کا ایک نمائندہ اجتماع تھا۔ جنازے کے دوران مجھے لگ رہا تھا کہ ابھی منو بھائی اٹھیں گے، مولوی کو ایک سائیڈ پر ہٹا کر مسکراتے ہوئے دوستوں کا شکریہ ادا کریں گے اور کہیں گے کہ میرا مرنا تو بس ایک بہانہ تھا کہ آپ مجھے ملنے کے لئے میرے گھر آجائیں، میں اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں، آپ کے آنے کا شکریہ۔ افسوس ایسا نہ ہوا اور منو بھائی اس دفعہ واقعی ہم سے دور چلے گئے۔
آج کا صحافتی المیہ یہ ہے کہ منو بھائی معاشرتی المیے اور انسانی اموات پر لاجواب کالم لکھتے تھے، اب ان جیسا کوئی ایک بھی لکھنے والا نہیں۔ منو بھائی کاش اپنی موت پرکالم بھی خود ہی لکھ جاتے اور ظاہر ہے کہ وہ کالم ایسا ہوتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے یادگار بن جاتا!!.

تازہ ترین