• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک پلازہ کی لفٹ میں ہم دو تو داخل ہوگئے۔
ایک صاحب بیچ میں پھنس گئے۔ ماشاء اللہ باریش۔ کندھے پر رومال بھی۔
اندر سے بٹن دبایا گیا۔ تو لفٹ کا دروازہ دوبارہ وا ہوا اور وہ صاحب گھبرائے گھبرائے اندر داخل ہوئے پہلے صاحب نے کہا اس لفٹ کا ’’ٹائم آئوٹ‘‘ ہورہا ہے۔
لفٹ میں مشکل سے بازیابی پانے والے حضرت نے کہا کہ لفٹ کا کیا پورے ملک کا ’’ٹائم ہی آئوٹ‘‘ ہورہا ہے۔
بات بالکل برحق ہے۔ خلق خدا یہی سوچ رہی ہے۔ جو کچھ ہورہا ہے۔یہ ٹائم آئوٹ ہونے کی نشانیاں ہی ہیں ہم اکیسویں صدی میں ہیں لیکن ہماری عادتیں۔ ہمارے رویے۔ ہماری حرکتیں تیرہویں چودھویں صدی کی سی ہیں۔ باشعور۔ بیدار ذہن۔ مضطرب دل رکھنے والی قیادت ہی اکیسویں صدی میں لے جاسکتی ہے۔
پورے ملک کا ’’ٹائم آئوٹ‘‘ ہورہا ہے۔ وہ جو ٹرکوں پر لکھا ہوتا ہے۔ ’نصیب سے زیادہ نہیں۔ وقت سے پہلے نہیں‘۔ بری گھڑی اٹک گئی ہے۔ شبھ گھڑی آنہیں رہی۔
لاہوریے وزیراعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا۔ باقی جو ہماری قیادت کے دعویدار تھے۔ انہیں لاہوریوں نے نااہل قرار دے دیا۔ وہ انہیں سننے ہی نہیں آئے۔
اب میدان میں کون رہ گیا ہے۔ غالب یاد آتے ہیں۔
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
پاکستان کا جہاز کسی کیپٹن کے بغیر ڈانوا ںڈول ہے۔ سمندر میں طوفان ہے۔ مغربی سرحد بھی شعلہ خیز ہے۔ مشرقی سرحد تو ہمیشہ سے دھواں دھواں رہی ہے۔
پتوکی کاحبیب۔ صادق آباد کا واجد۔ نوشہرہ کا دلاور۔ قلّات کا بہرام۔ ٹنڈو جام کا اللہ دینو۔ اسلام آباد کا نوخیز۔ گلگت کا گلزار۔ فاٹا کا محسود۔ مظفر آباد کا ممتاز۔ تو برسوں سے یہ کھیل دیکھ رہے ہیں۔ ان کے چہرے سپاٹ ہیں۔ آنکھیں نم۔ پیشانیاں سلوٹوں سے بھری۔ نادیدہ قوتیں۔ مقتدر طبقے۔ خفیہ ہاتھ۔ غیر سیاسی طاقتیں۔ نامعلوم افراد۔ سیکورٹی رسک۔ گیریژن اسٹیٹ۔ کیا کیا تراکیب اصطلاحات سننے کو ملتی ہیں۔ جمہوریت زخمی رہ جاتی ہے۔ پارلیمنٹ ادھوری۔ آئین تڑپتا۔ صوبے خودمختاری کے استعمال سے بے خبر۔ اپنے آپ کو غلام سمجھتے آزاد شہری۔ جہاں 1970 میں تھے۔ وہیں ہیں۔ دبئی آگے نکل گیا۔ کویت۔ سعودی عرب۔ چین اور تو اور بنگلہ دیش ہمارے جسم سے الگ ہونے والا بھی اپنے آپ کو مستحکم کرگیا۔
حقیقی جمہوری قوتیں تو الیکشن کی تیاری ایک ڈیڑھ سال پہلے سے شروع کرلیتی ہیں۔ وقت کا تقاضا یہ تھا اب جب الیکشن 2018 میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں۔ گوادر سے لاہور تک مسائل کے بوجھ تلے دبے پاکستانی تو ان زعما کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ یہ ہماری آئندہ خوشحالی کے لئے کیا پروگرام لے کر آرہے ہیں۔ تاریخ تو آصف علی زرداری کو بلاول ہائوس میں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں 2023 تک کا روڈ میپ بناتا مشاہدہ کرنا چاہتی تھی۔ پاکستان کے سنجیدہ اور غمزدہ عوام تو عمران خان کو بنی گالا میں آئندہ 5 سال کے اقتصادی منصوبے تشکیل دیتا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش ہے کہ علامہ طاہر القادری اپنے دینی اور دنیوی علوم کی روشنی میں پاکستان کو نظام عدل دینے کی کوشش کریں۔ مگر افسوس صد افسوس یہ سب مال روڈ پر اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے تھے۔ ٹریفک روک کر تاجروں کا کاروبار بند کرکے خوش تھے۔ اس ادارے پر لعنت بھیج رہے تھے۔ جہاں پہنچنا ہر صاحب بصیرت کی آرزو ہوتی ہے۔ اس لئے نئی نئی پارٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ جو جمہوریت کی معراج ہے۔ جو سب اداروں سے بالاتر ہے۔
میرا۔ آپ کا ۔ مائوں بہنوں کا۔ بزرگوں کا پاکستان بہت ہی خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہے۔ چار الف امریکہ۔ انڈیا۔ اسرائیل۔ افغانستان۔ اس کے لئے بربادیوں کے مشوروں میں مصروف ہیں۔ دریائے سندھ پر چھایا آسمان تو یہ کہہ رہا ہے کہ قومی سیاسی پارٹیاں۔ گزشتہ دہائیوں کے معاشی اعداد و شمار جمع کریں ماہرین معیشت سے مشاورت کریں۔ بینکوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لیں۔ اپنے اقتصادی منظر نامے کا بین الاقوامی تناظر میں جائزہ لیں۔ ہم پر کتنے قرضے چڑھ چکے ہیں۔ ہم اپنی کتنے فیصد آمدنی قرضوں کی ادائیگی کی نذر کر رہے ہیں۔ سی پیک کے 50 ارب سے زیادہ ڈالر ہماری محرومیاں دور کرسکیں گے یا نہیں۔
وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے در پر بھی دستک دے رہا ہے کہ ان کے پاس اسلام آباد بھی ہے۔ لاہور بھی۔ وہ کوئی ایسی منصوبہ بندی کریں۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ خفیہ قوتوں پر الزامات عائد کرنے کی بجائے آئندہ پانچ سال کا لائحہ عمل سامنے لائیں۔سب سے بڑی آزمائش میاں محمد نواز شریف کی ہے جنہیں عدالتی نااہلی کے باوجود پارٹی نے اپنا سربراہ بنایا ہے ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک بابصیرت قائد کے طور پر اس بحران سے نکلنے کا راستہ تراشیں۔ بیجنگ۔ واشنگٹن۔ دہلی سارے دارالحکومت ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
تاریخ موقع دے رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی امکانات کے در کھلے ہیں۔ سب کی آزمائش ہے۔ قومی سیاسی لیڈروں کی بھی۔ عدلیہ کی بھی۔ فوج کی بھی۔ وہ سب ادارے جن کے ہاتھوں میں اختیارات ہیں۔ آج اگر 70 سال بعد پاکستان وہاں نہیں ہے جہاں اس کو ہونا چاہئے۔ اس کی ذمہ داری صرف سیاسی جماعتوں پر نہیں۔ فوج پر بھی ہے کہ جنرلوں کی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ انہوں نے بھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ عدلیہ بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔ روزانہ آسمان دیکھتا ہے۔ مائیں بین کررہی ہیں۔ باپ بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دے رہے ہیں۔ شہر جنگل بن رہے ہیں۔ پھول جیسی بیٹیاں روندی جارہی ہیں۔ یہ کسی کے لئے بھی قابل فخر نہیں ہوسکتا۔ نہ میاں نواز شریف کے لئے۔ نہ آصف زرداری۔ نہ عمران خان۔ نہ قادری۔ نہ مولانا فضل الرحمن۔ نہ ہی بلاول زرداری بھٹو۔ یقیناََ چیف جسٹس ثاقب نثار بھی ملول ہوں گے۔ جنرل قمر باجوہ کو بھی رات آرام سے نیند نہیں آتی ہوگی۔ سب بیٹیوں والے ہیں۔ سب کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ ملک کو اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے۔ کوئی اکیلا قوم کو اس بحران سے نہیں نکال سکتا۔
لیڈروں سے زیادہ تو لوگ باشعور نکلے ہیں۔ وہ ریلیوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے وہ اب پاکستان کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب وہ اسی کو اپنا رہنما تسلیم کریں گے جو ایک واضح پروگرام لے کر سامنے آئے گا۔
یہ گھڑی محشر کی ہے ، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل ، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
کوئی تو پاکستان کا ٹائم آئوٹ ہونے سے روکے۔ جو پاکستان کا ٹائم ان کرے گا۔ اب وہی ہمارے دل کا چین ہوگا۔

تازہ ترین