• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے کبھی موجودہ حکومت کےلئے کلمہ خیر نہیں کہا ۔ کہوں بھی کیسے ۔میں نے جب بھی کسی ادارے میں جھانک کر دیکھاتوجو بھی منظر سامنے آیا وہ کہیں دریدہ تھا تو کہیں سربریدہ تھا۔ یہی سچ جب عمران خان اور شیخ رشید نے بولا تو کہا گیا کہ قیامت آ گئی ہے ۔پارلیمنٹ کیلئے گالیاں نکال دی گئی ہیں ۔مقدس ترین گائے کی بے حرمتی کر دی گئی ہے۔ہائے کیا کروں ۔کوئی ادارہ ایسا نہیں رہا کہ جس پر انگلی اٹھاتے ہوئے انگلی کٹ جانے کا خدشہ ہو۔تعلیمی اداروں کی حالت اتنی زیادہ بری ہوچکی ہے کہ وہاں اچھی نظر ڈالنی ہی ممکن نہیں رہی ۔نو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے مقدمات عدالتوں میں ہیں ۔زیادہ تر یونیورسٹیوں میں قائم مقام وائس چانسلر کام رہے ہیں۔ویسے بحیثیت کالم نگار میرا تو کام یہی ہے کہ’’جب بھی ڈالوں بری نظر ڈالوں ‘‘مگر کہاں کہاں ڈالوں۔
گورنمنٹ کالج لاہور ۔ جس میں داخلہ کسی زمانے میں ہر بچے کی سب سے پہلی خواہش ہوتی تھی اسے یونیورسٹی بنا کر ستیاناس کر دیا گیا ۔حتی کہ نام تک بدل دیا گیا۔ ڈیڑھ سو سال کی روایت منہدم کر دی گئی اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ میں نے اپنے ایک دوست کے بیٹے کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلے کا مشورہ دیا تو پتہ چلا کہ پہلے وہ اسی کالج کا طالب علم ہوا کرتا تھا مگر بہتر تعلیم نہ ہونے کے سبب اس نے کالج تبدیل کر لیاہے۔ یہ بات سن کرمجھے کتنادکھ ہوا اس کا اندازہ اہل اقتدار کو نہیں ہوسکتا ۔میرا خیال ہے کہ اولڈ راونین کو اس سلسلے میں خصوصی کردار ادا کر نا چاہئے ۔بارانی یونیورسٹی اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کا عروج بھی زوال کی طرف رواں دواں ہے۔دونوں کے وائس چانسلر نہیں ہیں اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے ۔ابھی تک عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی دوسری بڑی یونیورسٹی بارانی یونیورسٹی ہے مگر جس شخصیت نےاِس یونیورسٹی کو اس مقام تک پہنچایا ۔اسے صرف اس لئے پیچھے دھکیلا جارہا ہے کہ فیصل آباد کے ایک وزیر سے اس کے مراسم اچھے نہیں۔ کتنے ستم کی بات ہے کہ بارانی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کےلئے جو تین نام وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھیجے گئے ہیں اُن میںسابق وائس چانسلر ڈاکٹر رائے نیاز کا نام شامل نہیں۔
یہ تو تھیں ساری تکلیف دہ باتیں ۔اب کچھ کانوں کو بھلی لگنے والی باتیں بھی سن لیجئے ۔ میرےلئے عجیب و غریب حدتک وہ دن حیرت انگیز تھا جب میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی گیا۔یقین کیجئے کہ پچھلے تین برسوں میں اُس نے جو ہمہ جہت ترقی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ بات مجھے اچھی نہیں لگ رہی مگر پھر بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ یہی سچ ہے ۔بے شک اِس کا کریڈٹ اِسی لولی لنگڑی حکومت کوجاتا ہے بلکہ نواز شریف کو جاتا ہےکہ انہوں نے اِس یونیورسٹی کا وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی جیسے شخص کولگا دیا۔ابھی تک کہیں کہیں کوئی موجود ہے ۔یعنی ابھی آسمان پاکستانیوں سے مایوس نہیں ہوا ۔ڈاکٹر شاہد صدیقی کا وسیع ترتدریسی و انتظامی تجربہ اپنی جگہ پر مگر ان کی حیران کُن بصیرت پر دل وجاں قربان ۔ یقین کیجئے انہوں نے پچھلے تین سالوں میں یونیورسٹی کو صحیح معنوں میں علم وادب کا تحقیقی اور تخلیقی گہوارہ بنا دیا ہے۔ وہ مجھے علم و قلم تحریک محسوس ہوئے ۔انہوں نے اس درسگاہ کو تیرہ لاکھ طالب علموں کے مشعل بردار جلوس میں بدل دیا ہے ۔انہوں نے ایسی قندیلیں روشن کی ہیں کہ ساراعلمی و ادبی افق چمک چمک اُٹھا ہے۔عمومی طور پر اس یونیورسٹی کو فاصلاتی نظامِ تعلیم کا مرکز خیال کیا جاتا تھا جو کسی حد تک درست بھی تھا کیونکہ اس یونیورسٹی کی سرگرمیاں اس کی چاردیواری تک محدود تھیں۔ڈاکٹر شاہد صدیقی نے یونیورسٹی کے بارے میں پائے جانے والے اس تصور کو اتنی چابک دستی سے بدلا ہے کہ کچھ ہی دنوں میں نظارہ تعلیم و تربیت کچھ ہو گیا ۔ انھوں نے یونیورسٹی میں ایسے پروگراموں کا آغاز کیا جو چشمہ ِ نور و نکہت بن گئے جن میں پاکستان بھر سے اساتذہ، محققین، شعرا، ادبا، اہلِ صحافت اور مختلف علمی شعبوں کے ماہرین شریک ہونے لگے اور علمی وادبی پروگرام، مذاکرے، مشاعرے ،مکالمے اور کتابوں کی تعارفی تقریبات تسلسل اورتواتر کے ساتھ منعقد ہونے لگیں۔ یونیورسٹی کے علمی دائرے کو کشادہ کرنے اور اس کی ثروت کو بڑھانے کے لئے نئے شعبوں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔نصابی کتب جدید تر تقاضوں کے مطابق تیار کرائی گئیں ۔ تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دیا گیا۔ انعامات واعزازات کا اجرا ہوا۔ عالمی وبین الاقوامی کانفرنسز منعقد کرائی گئیں ۔ علمی وادبی محافل کا اہتمام کیا گیا۔ ملکی وغیر ملکی تعلیمی وسماجی اداروں کے اشتراک سے نئے منصوبوں کا آغاز ہوا۔ ملازمین کی فلاح وبہبود کے لئے نئے اقدامات کئے گئے طلبہ و طالبات کونئی تعلیمی سہولتیں فراہم کی گئیں ۔ تحقیقی مجلات کے اجرا کے لئے انقلابی اقدامات کیے گئے۔اس وقت یونیورسٹی کے مختلف شعبوں سے سترہ تحقیقی مجلات شائع ہو رہے ہیں ۔ پاکستان میں یہ اعزاز صرف اسی یونیورسٹی کو حاصل ہے۔اور یہ سارا کام اسلام آبادکے مرکزی کیمپس تک محدود نہیں بلکہ علاقائی مراکز کو بھی فعال بنایا گیا ہے اور مختلف بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، ملتان اور پشاور میں بھی یونیورسٹی کے پروگرام اور سیمینار تواتر کے ساتھ منعقد ہونے لگے ہیں۔ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کوشش سے یونیورسٹی میں بصارت سے محروم طلبہ کے لئے نئے فنی وتکنیکی مراکز قائم کیے گئے جو نہ صرف مرکز بلکہ پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ریجنل کیمپسز میں کام شروع کر چکے ہیں۔ مین کیمپس اور علاقائی دفاتر میں لائبریریوں کو بہتر بنایا گیا ہے اور اب یہ لائبریریاں صبح سے شام سات بجے تک ہفتے کے ساتوں دن کھلی رہتی ہیں۔ سماجی تعمیر و ترقی کی غرض سے پسماندہ علاقوں کی بچیوں کو مفت تعلیم فراہم کی گئی ہے ۔ جیلوں میں قیدیوں کے لئے بھی تعلیم مفت کر دی گئی ہے ۔ فاٹا اور بلوچستان کے لئے میٹرک تک تعلیم فری کی گئی ہے ۔ اس وقت پاکستانی جامعات میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اپنے منفرد انداز واسلوب اور جداگانہ رنگ وآہنگ کے باعث ایک ممتاز مقام حاصل کر چکی ہے۔ یونیورسٹی کا سفر تو لگ بھگ پینتالیس برس کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ یونیورسٹی کا قیام ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے ذہنِ رسا کا نتیجہ ہے۔اُس وقت اس کا نام '‘‘پیپلز اوپن یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا جو بعد میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ اس یونیورسٹی کو دُنیا میں دوسری، جبکہ ایشیا میں پہلی فاصلاتی نظامِ تعلیم کی حامل یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تازہ ترین