• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام 17 جنوری کو لاہور میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا جو احتجاجی جلسہ منعقد ہوا ، وہ شرکاء کی تعداد کے حوالے سے نہ صرف متاثر کن نہیں تھا بلکہ آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی وضع کرنے میں بھی ناکام ہو گیا ہے ۔ اس جلسے کے اسٹیج سے پارلیمنٹ کو گالیاں دی گئیں ، ان کی وجہ سے احتجاجی جلسے کے معکوس نتائج برآمد ہوئے ، جن کا فائدہ مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے ۔ اپوزیشن کے اس اجتماع کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ اب اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور حکومتیں گرانے کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے ۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور کے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر احتجاج کے نام پر سیاسی حکمت عملی وضع کی تھی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مرحلے پر ان کی کوشش کامیاب ہوتی نظر آئی ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ 17 جنوری 2018 ء کو انہوں نے لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خلاف جس احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا ہے ، وہ ریلی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف 2014 ء کے دھرنے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو گی ۔ 2014 ء میں اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنی بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا تھا ۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی ان کے ساتھ تھے ۔ اس دھرنے سے پہلے ماڈل ٹاؤن لاہور کا سانحہ رونما ہو چکا تھا ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف لوگوں کا غم و غصہ بھی تازہ تھا ۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مقبولیت بھی عروج پر تھی اور عام انتخابات 2013 ء کے بعد صرف ایک سال کے اندر مسلم لیگ (ن) اپنی مقبولیت کی کم ترین سطح پر تھی لیکن اس وقت تحریک انصاف اور شیخ رشید کے سوا پارلیمنٹ کی باقی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی تھیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے میاں نواز شریف کی حکومت کے دفاع میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا ۔ دو ماہ کے دھرنے کے باوجود بھی حکومت نہ گرائی جا سکی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی راہیں جدا ہو گئیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو مزید ’’لیز ‘‘ مل گئی ۔
17 جنوری 2018 کے لاہور کے احتجاجی جلسے سے قبل حالات پھر تبدیل ہو گئے تھے ۔ اس مرتبہ پارلیمنٹ منقسم تھی ۔ خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان بہت فاصلے پیدا ہو چکے تھے ۔ ان فاصلوں کے کئی اسباب ہیں لیکن ایک سبب سندھ میں نیب ، ایف آئی اے اور دیگر وفاقی اداروں کی کارروائیاں بھی تھیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ میں ہونے والی کارروائیوں نے بھی ان دو سیاسی جماعتوں کو دور کیا ۔ 2016 ء میں عمران خان نے اسلام آباد میں جو دھرنا دیا تھا ، اس کے نتیجے میں پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ صرف کمزور ہو چکی تھی بلکہ میاں نواز شریف ، ان کے اہل خانہ ، بھائی میاں شہباز شریف اور دیگر قریبی ساتھیوں کے خلاف نیب میں مقدمات نے بھی ان کی سیاسی ساکھ کو متاثر کیا ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی اپنے احتجاج میں شامل کر لیا اور ایسا ماحول بنا دیا کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں عتاب کاشکار مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو زیر کر لیں گی لیکن سب کچھ توقع کے برعکس ہوا ۔ 17 جنوری کے لاہور کے جلسے میں اتنے لوگ نہیں تھے ، جن سے ٹی وی چینلز کے متاثر کن اسکرین شاٹس بن سکتے ۔ آصف علی زرداری کی موجودگی میں عمران خان کے جلسے میں نہ آنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتی ہیں ۔ پھر اس کے بعد شیخ رشید اور عمران خان نے جو کچھ کہا ، وہ اس اجتماع کے مقاصد کو سبوتاژ کرنے کے لئے کافی تھا ۔ دونوں رہنماؤں نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی ۔ عمران خان اور شیخ رشید اس کے لئے جو بھی جواز پیش کریں ، وہ پاکستان کے سیاسی حلقوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔ دونوں رہنماؤں کے پارلیمنٹ کے بارے میں ریمارکس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ 2014 ء کی طرح ایک بار پھر عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف متحد ہو گئی ۔ اس کا فائدہ منطقی طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہی پہنچا ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کو جو سیاسی نقصان ہوا ہے ، اس کا ازالہ کرنے کے لئے کچھ وقت بعد حالات شاید سازگار ہو سکتے ہیں لیکن یہ مکمل ازالہ نہیں ہو گا ۔ پیپلز پارٹی کو لاہور کے جلسے میں شرکت سے جو سیاسی نقصان ہوا تھا ، اس کا پیپلز پارٹی نے عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف پارلیمنٹ میں قرار داد منظور کراکے ازالہ کر لیا ۔
اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف اپوزیشن کا کوئی بڑا سیاسی اتحاد آئندہ نہیں بن سکے گا ۔ ویسے بھی اب اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور حکومت کو گرانے کا وقت ختم ہو چکا ہے ۔ یہ وقت 2014 ء میں تھا یا 2016 میں بھی اگر یہ ہوجاتا تو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو فائدہ ہوتا ۔ عمران خان میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے میں کامیاب ضرور رہے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں گرا سکے ہیں ۔ آصف علی زرداری پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لئے جگہ پیدا کرنے کی غرض سے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر ضرور کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ حکومت گرانے کے حق میں شاید نہیں ہیں ۔ 17 جنوری کو لاہور میں اپوزیشن کا اجتماع اپنے معکوس نتائج کی وجہ سے عام انتخابات میں بھی انہی اپوزیشن جماعتوں کی سیاست پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے ۔
kk
کسے نے نئیں رونا
عبدالرئوف
یہ 1986کے اوائل کا ذکر ہے ہم ایک دن روسیوں کے افغانستان پر قبضے کے بعد کی صورتحال پر غور کر رہے تھے ۔ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کیاروس اس کے بعد گرم پانیوں کی خواہش میں پاکستان کی طرف بھی بڑھے گا؟ تبصرے بےشمار تھے اور امریکی امداد اور پروپیگنڈا کے زیراثر ’’جہاد‘‘ کے فتوے بھی۔ میں، منوبھائی، آصف علی پوتا، زرقا، قاضی سعید اور منوبھائی کے دوست کی ایک بیٹی اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ منوبھائی کہنے لگے ’’تم جانتے ہو میں تو سوشلسٹ ہوں۔ اگر روس ادھر آ بھی گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ میری تو بخشش ہو جائے گی۔ البتہ میں نے سوچا ہے کہ ان کے آنے سے پہلے اپنے نام تبدیل کرلئے جائیں۔ میرا نام منیر احمدقریشی ہے سو یہ بدل کر قریشوف ہو جائے گا۔ عابد تہامی تم اپنا نام تہاموف کرلینا، رئوف کا نام تو آسان ہے یہ روفوف ہو جائے گا۔ زرقا تمہارا نام تو پیاراسازرقانوا ہوجائے گا۔ ‘‘منوبھائی کے دوست کی بیٹی چپ نہ رہ سکی کہنے لگی ’’میرا نام بھی تو بتائیں کیا ہوگا؟‘‘ کہنے لگے ’’تمہارا نام سب سے آسان ہے، بے وقوف‘‘
ایسے ہی تھے منو بھائی۔ چنچل، شرارتی، اٹکتے لہجے میں درفنطنی چھوڑنے والے۔ اب آپ مجھ سے درفنطنی کا مطلب نہ پوچھ لیں۔ دراصل یہ لفظ بھی بے شمار دوسرے لفظوں کی طرح ان کی ہی اختراع ہے۔ کسی کوگالی دینی ہوتی تو اسے ’’لور دے ساں‘‘ کہہ دیتے۔ مطلب پوچھنے پر کہتے ’’سور‘‘ کہہ رہا ہوں فرنچ ٹرم میں بنایا ہے۔
بے شمار ڈراموں، نظموں، کالموں کے خالق منوبھائی ایسے ہی تھے عام زندگی میں۔ انسان دوست، اور ادب سے اور خاص طور پراستعمار کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کے خلاف لکھے جانے والے مزاحمتی ادب کے رسیا۔ فلسطین کے شاعر اور ادیب ہوں یا ہندوستان کے اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے ادیب، سب انہیں بے حد پسند تھے۔ اسماعیل کادرے سے بھی میراتعارف انہی نے کرایا اور نجیب محفوظ سے بھی۔ پھر ہندوستان کےفلم ڈائریکٹرستیہ جیت رائے، شیام بینگل اور بنگال کی تحریکوںکے بانی ادیبوں اور سوشلسٹ ریفارمرز سے بھی۔
پاکستان میں بھی وہ سماجی انصاف چاہتے تھے۔ طبقاتی کشمکش کے دور میں اونچے طبقے کے ہاتھوں، استحصال زدہ غریب آدمی کا ساتھ دینے والے منوبھائی جب لکھتے تھے کہ؎
میں جے شاعر بنیاں پھرنا
تے اُچے اُچے دعوے گھڑ کے
نکیاں نکیاں گلاں کرناں
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
میری ساری عمراں دے دکھ
میری ساری عمراں دی بھکھ
کینکر ایس دھرتی تے آگئے
کینکر لوکی گیت بنا گئے
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
شادو لمیاں والاں والی
منوںگوری تے اکھیوں کالی
شادو دی ماں دے بوہے توں
جس ویلے جنج پرت گئی سی
شادو تے کیہہ ورت گئی سی
شادو دی ماں کیوں روئی سی
شادو ڈب کے کیوں موئی سی
میں تے ایہہ وی جان نہ سکیا
منوبھائی نے بے شمار موضوعات پر کالم لکھے۔ ان کا ’’گریبان‘‘ معاشرے کو اپنے گریبان میںجھانک کر دیکھنے پرمجبور کرتا تھا۔ سماجی ناانصافی کے واقعات پر وہ کڑھتے رہتے تھے۔ ہولناک واقعات انہیں سُن کردیتے تھے۔ مجھے یادہے جس دن شہر میں آئی ایک نوجوان لڑکی کو ایک ٹانگے والے نے اپنے اڈے پر لے جا کربےعزت کر دیااور اس نے مینارِ پاکستان سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔منو بھائی سارادن اداس رہے۔
اس کو مخاطب کرکے انہوں نے لکھا ’’میری بیٹی!میں تم سے شرمندہ ہوں۔ میںہی نہیں اس لاہور شہر کا ہر لکھنے والا، ہر پڑھنے والاتم سے شرمندہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تم نہیں میری بیٹی گڑیا کی لاش پڑی ہے۔‘‘
پھر جب منو بھائی ایسی باتیں کرتے تھےکہ سب کو ہنسی آ جائے تو ہم حیران ہوجاتے تھے کہ اپنے اندر اتنے دکھ سمیٹے ہوئے یہ انسان کس طرح ہنس سکتاہے۔ وہ صرف معاشرے پر یا دوسرے پر نہیں ہنستے تھے خود اپنا بھی مذاق اڑاتے تھے۔ اپنی طویل نظم ؎
وال ودھا لئے رانجھے نیں
تے ٹنڈ کرالئی ہیراں نیں
وقت کےبدلنے کےساتھ طویل ہوتی گئی۔ ایک طرف تو انہوں نے لکھا کہ؎
دھیاں تن بشیراں دے گھر
پتر دو جمالے دے
پوڑیاں دے وچ قصہ مکیا
لوتھ گئی وچ نالے دے
پر اجے قیامت نئیں آئی
بینظیرکے اس دور میں جب پی پی پی کے جیالے اسے چھوڑ کر الگ ہو رہے تھے، منو بھائی نے لکھا؎
جمعہ بازار سیاست وِکدی
قیمت ودھ گئی گڈھوں (گدھے) دی
شریف لوہوار دے پتراں نئیں دی
ریڑھی لا لئی لڈوواں دی
تے بھٹو دی دھی تولن لگ پئی
بھری ترکھڑی ڈھوڈواں دی
پر اجے قیامت نئیں آئی
منو بھائی کے ڈراموں کے کردار بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ وہ خواہ ’’جھو ک سیال‘‘ کے پیرسائیں ہوں یا ’’سونا چاندی‘‘ کے مین کردار، ’’گمشدہ‘‘ کا پہلوان ہو یا ’’جزیرہ‘‘ کا جیرا، سب اصل زندگی کے کردارہیں۔ ان کو پہچان کر اپنے ڈراموں میں کردار کرانے کے لئے بھی منوبھائی اپنی مثال آپ تھے۔ نثار قادری جو ٹیکسی ڈرائیور تھےاور منوبھائی کو ٹی وی اسٹیشن چھوڑنے آئے تھے، دھر لئےگئے اور پھروہ گریٹ نثار قادری بن گئے۔ جھوک سیال کے کردارمیں ’’پیرسائیں آندا تے مٹھے چول کھاندا ‘‘ کینٹین پر چائے پلوانے والا تھا۔ اس کا لہجہ انہیں اتنا پسند آیا کہ پھر اسی سے وہ کردار کروایا۔
منوبھائی سے جڑی یادیں بے شمار ہیں۔ ان کو یاد کرکے آنکھیں بھر آتی ہیں لیکن ’’جزیرہ‘‘ میں ان ہی کا ایک کردار جو افضال احمد نے کیا۔ اس ڈرامے کےآخر میں اس نےکہا ’’کسے نے نئیں رونا‘‘ تو یارو کسے نے نئیں رونا بس ان کی اچھی باتیں یاد کرتے رہو۔

تازہ ترین