• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچپن میں ایک قصہ پڑھا تھاکہ ایک گائوں میں ایک ہی کنواں تھا جس سے تمام گائوں والے پانی بھرتے تھے ایک کتا اُس میں گر گیا پہلے کسی کو نہیں پتہ چلا مگر کچھ دنوں بعد اُس کے پانی سے بو آنے لگی ۔پتہ کرنے پر معلوم ہوا اس میں کتا گرکر ڈوب گیا ہے ۔ایک لال بھجکڑ آئے انہوں نے کہا 500ڈول پانی نکال کر ضائع کردو جب 500ڈول پانی نکلا تو اُس پانی سے بُو آنا بند ہوگئی ۔لال بھجکڑ مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے روانہ ہوگئے۔ 10پندرہ دن بعد پھر اُس میں بُو آنے لگی پھر ان بھجکڑصاحب کو بلوایا گیاپھر 500ڈول پانی نکال دیا گیا پھر بُو ختم ہوگئی ۔العرض بُو آتی رہی اور 500ڈول نکلتے گئے ۔آخر کار گائوں والے تنگ آگئے اور ایک سیانے کو دوسرے گائوں سے پکڑ کر لائے تو اُس نے معائنہ کرنے کے بعد کہا ،بے وقوفو جب تک اس کنویں سے کتا نہیں نکالو گے مسئلہ جوں کا توں رہے گا ۔آخر کار بندے کو کنویں میں اُتارا گیا اور کتے کی لاش نکالی گئی اور تمام پانی ضائع کیا تب جاکر مسئلہ حل ہوا ۔بالکل اسی طرح 70سالوں سے ہم اپنے مسائل کے لئے لال بھجکڑوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے ہم دنیا میں ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔ہماری حکمران بیوروکریسی نہیں چاہتی کہ عوام کے مسائل حل ہوں ۔سب سے پہلے جمہوریت کا گلا گھونٹاگیا۔ 1958میں مارشل لالگایا، عوام ڈر گئے ،سیاست دان دب گئے ۔کرپٹ سیاست دانوں پر پابندیاں لگیں اور جنرل ایوب خان نے اپنے مطلب کے سیاست دانوں سے کام چلایا ۔400بیوروکریٹس بیک جنبش قلم فارغ کردئیے گئے، یہ سب کرپٹ نہیں تھے، گیہوں کے ساتھ گھن پس گیا، ایماندار اور کرپٹ میں فرق نہیں کیا گیا ۔پھر 1960میں کراچی سے ایک رات دارالحکومت اسلام آباد کے جنگل میں منتقل کردیا گیا کسی نے آواز نہیں اُٹھائی، پھر جمہوریت گئی، اقتصادی شہر کراچی لاوارث ہوگیا ۔یہاں یہ بتا نا ضروری ہے کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو بھارت کے 13صوبے تھے وہاں 70سال میں 36صوبے اور 7نیم صوبوں میں تبدیل کرکے عوام کی ترقی کے راستے کھولے گئےمگر ہم نے اس کے برعکس پاکستان کے 16صوبوں (بشمول انتظامی ریاستیں)کو کم کرنا شروع کردیا ۔صوبہ سندھ کے 3صوبے قیام پاکستان کے وقت تھے کراچی خیر پور اور اندرون سندھ کوصوبےکا درجہ تھا ۔پہلے کراچی کے اسٹیٹس کوختم کیا پھر خیر پور ختم کردیا ۔پنجاب کے2صوبے لاہور اور بہاولپورتھے ۔بلوچستان کے 4صوبے( اسٹیٹس )تھے کوئٹہ ،قلات ،لسبیلہ اور مکران۔ اسی طرح فرنٹیر کے 6صوبے تھے جس میں پشاور، سوات، دیر، چترال، ہنزہ، گلگت۔جب 1955میںچوہدری محمد علی وزیراعظم بنے تو ون یونٹ کے نام پر تمام صوبے ختم کردئیے گئے۔ مشرقی پاکستان کا اکلوتا صوبہ ڈھاکہ بھی ختم ہوگیا ۔یحییٰ خان نے ایوب خان سے حکومت چھینی اور 1970میں مغربی پاکستان کے 4صوبے اور مشرقی پاکستان کا ایک صوبہ بحال کیا ۔ایک مرتبہ پھر بیوروکریسی کو نقصان پہنچایا گیا اور 303بیوروکریٹس نکال دیئے گئے اس مرتبہ بھی وہی کیاگیا ایماندار اور کرپٹ ایک ترازو سے تولے گئے ۔اب ایمانداری معیار ہی نہیں رہی ۔ پھر سب سے بڑا فرق مغربی پاکستان کی آبادی مشرقی پاکستان سے کم تھی الیکشن ہوئے مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ جیتی تو اُس کو اقتدار نہیں دیا گیا نتیجتاً بنگالی بھائی ناراض ہوگئے ،بھارتی علاقہ درمیان میں تھا اُس نے فائدہ اُٹھاکر بنگالیوں کو ورغلا یا اورپھر خود ہی حملہ کرکے مغربی پاکستان سے ناطہ تڑوا دیا اور یوں ملک دولخت ہوگیا ۔ہم نے پھر بھی اس سانحہ سے سبق نہیں سیکھا، صوبوں میں کشمکش کی فضابرقرار رکھی ایک طرف 3صوبوں کی آبادی والا علاقہ تو دوسری طرف اکیلا پنجاب آبادی کے لحاظ سے ان3صوبوں سے بڑا تھا تو ملک میں اکیلا حکومت کرتا تھا ،سندھ میں پانی کا مسئلہ ، تو پختون خوا میں بجلی پر کنٹرول، تو کراچی کا سندھی استحصال ،بلوچستان کے معدنیات اور گیس پر مرکزی حکومت کا اختیار ،جب جب صوبوں کی تحریک چلی مشرقی پاکستان کی طرح غداری کا لیبل لگا کر کچل دیا گیا ۔اگر جس طرح ڈسٹرکٹ نئے بنائے گئے صوبوں کی تشکیل بھی ہوتی رہتی تو اقتدار سب میں تقسیم ہوتا ۔ایک مرتبہ ضیاءا لحق حکومت نے اس کو حل کرنے کی کوشش کی اور 17صوبوں پر عمل درآمد بھی ہونے جارہا تھا جو انصاری کمیشن نے بہت محنت کے بعد 4چار صوبے کی صورت ہر علاقے کی تقسیم کرکے ایک صوبہ دارالحکومت اسلام آباد تھا ۔مگر بدقسمتی سے ضیاء الحق کے جہاز کے حادثہ نے اس کو بھی متاثر کیا۔ بیوروکریٹس اور آنے والے حکمرانوں نے مل کر اس کو دبایا تاکہ اُن کی اجارہ داری(Monopoly) برقرار رہے ۔عملاً پنجاب کا پورے ملک پر ہر لحاظ سے کنٹرول ہے ۔خود پنجاب کے غریب عوام اس منہ زور بیوروکریٹس اور کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں برادریوں کے نام پرچوہدریوں، جاگیرداروں،وڈیروں کے ہاتھوں یر غمال بنے ہوئے ہیں۔ اگر بھارت کی طرح روز اول ہی ان وڈیروں، نوابوں ،جاگیرداروں کا نظام ختم کردیا جاتا تو ہم بھی ترقی کرتے۔صرف بھٹو مرحوم نے جاگیرداروں کو اپنے مفاد میں ختم کرنے کی کوشش کی مگر جعلی کاغذوں کا پیٹ بھر کر زمینداروں نے اپنی اپنی زمینیں بچالیں۔ کوٹے کے نام پر مہاجروں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں جو کسی اور صوبے میں نہیں لگائی گئیں معیشت کو قومیا کر تباہ کردیا گیا ۔تعلیمی ادارے قومیا کر عوام پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے۔ ایک بھی نئی یونیورسٹی ،کالج حکومت اور حکمرانوں نے نہیں بنائیں۔ اگر ضیاء الحق تعلیمی ادارے واپس نہیں کرتے تو آج نہ صرف ٹوٹے پھوٹے اسکول کالج اور یونیورسٹیاں کھنڈروں کی شکل میں پائی جاتیںبلکہ قوم تعلیم سے محروم ہوجاتی خود نئے اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں نجی اداروں کے مرہون منت ہیں جس سے ہم تعلیم کے میدان میں کم از کم شہروں میں خود کفیل ہیں۔ ستم ظریفی تو دیکھئے ہمارے صوبہ سندھ میں یونیورسٹیاں کھولنے کے لئے رشوت کے علاوہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ وزراء کےآگے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں صرف سند ھ اسمبلی چارٹرڈ دیتی ہے ۔ سرکاری اسپتال ڈاکٹروں، دوائیوں اور آلات سے خالی اور وہاںمریض بستر کے بغیر فرشوں پر پڑے ملتے ہیں ۔کھربوں کا بجٹ سب مل ملا کر کھارہے ہیں ۔نیب بے بس، عدلیہ غصے میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تماشہ دیکھ رہی ہے کسی کا ان پر بس نہیں چلتا ۔کہاں جائے یہ مظلوم قوم ،کھربوں روپے ٹیکس بھی دیتی ہے تو ان کی جیب میں چلاجاتا ہے جب تک نظام کی تبدیلی نہیں لائی جائے گی ایک نہیں 10الیکشن کروالیں یہی لوگ گھوم پھر کر واپس آجائیں گے ۔صرف الیکشن کا بازار لگے گا ۔گاڑیوں میں بھر بھر کر ووٹروں کو لایا جائے گا۔پیسہ پانی کی طرح بہے گا اور پھر وہی جیتیں گے جو خرچ کریں گے۔ الیکشن کمیشن پھر منہ دیکھتا رہ جائے گا ۔یاد رکھیں جس طرح پوری دنیا میں صوبے بنتے ہیں پاکستان میں بھی جب تک صوبے نہیں بنیںگے اقتدار تقسیم نہیں ہوگا پڑھے لکھے مقامی لوگ الیکشن نہیں جیت سکیں گے ملک کی قسمت نہیں بدلے گی صرف چہرے بدلیں گیا۔

تازہ ترین