• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ادارے کام نہیں کرینگے تو سپریم کورٹ مداخلت کریگی، عرفان قادر

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں طلعت حسین نے پروگرام کے آغاز میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ کابل حملہ دنیا کی بڑی خبر بن گئی ہے ، طالبان نے بھی ذمہ داری قبول کی ہے اور خبر ہے کہ کابل کا کراچی میں تعینات سفارتکار بھی شامل ہے تو اس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیںجبکہ ماہر قانون عرفان قادر نے کہا کہ ادارے کام نہیں کریں گے تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا آئین میں اختیار ہے یانہیں ۔ ماہر قانون سلمان اکرم راجہ اگر ہم سمجھتے ہیں ریاست کمزور ہے تو پھر ایک بات پیدا ہوتی ہے کہ عدلیہ کو اُس خلاء میں قدم رکھنا چاہیے اگر قدم رکھنا ہے تو پھر اُس کے واضح اُصول طے ہوں وہ بدلتے نہ رہیں۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ حکمرانوں نے مسائل پر توجہ نہیں دی ۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کیا کہ بند کمرے والے کام اب نہیں ہوں گے ، اس وقت ملک کے حالات سیاسی قیادت ، عدلیہ کی قیادت اور میڈیا سے بہت زیادہ تدبر کے متقاضی ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان‘‘ میں سوال اٹھایا گیا سپریم کورٹ کے ججز نے یہ طے کر لیا ہے کہ اسی طرح سے معاملات کو آگے بڑھانا ہے تو پھر آنے والے دنوں میں یہ طریقہ کار بڑھتا ہوا نظر آئے گا ؟ اس کے جواب میں ماہر قانون عرفان قادر کا کہنا ہے کہ بالکل اسی تناظر میں مجھے ایک مائنڈ سیٹ نظر آرہا ہے اور چیف جسٹس نے اُس مائنڈ سیٹ کا برملا اظہار بھی کیا کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے یہ جو مائنڈ سیٹ ہے ان کے ذہن میں کہ یہ ان کا کام ہے جمہوریت کو ڈی ریل کرنا یا نہ کرنے کی اجازت ان کے ہاتھ میں ہے یہ جو خیال ہے میں سمجھتا ہوں یہ ایک احساس برتری ہے ، اس کو ہم کہہ سکتے ہیں وہ سمجھتے ہیںپاکستان میں جمہوریت کا نفاذ یا انحراف ان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ادارے اپنے کام نہیں کریں گے اور سپریم کورٹ اس میں مداخلت کرے گا تو وقتی طور پر کچھ لوگ اس پر خوشی منائیں گے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس طرح کاکوئی اختیار آئین نے دیا ہے یا نہیں دیا۔ اگر عدلیہ سمجھتی ہے اس میں رول اُن کو ملنا چاہیے تو پھر آئین میں ترامیم کی ضرورت ہے ۔ آئین میں چونکہ اس کی جگہ نہیں ہے اس لئے بہتر تھا کہ چیف جسٹس اپنے گھر کو صحیح کرتے اتنے لاکھوں کیسز جو پڑے ہیں اس کا حل نکالتے۔ ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا ایک سوال کے جواب میں کہنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ایک پس منظر ہے ہمارے آئین میں کچھ حقوق ہیں جن کو ہم انسانی حقوق کہتے ہیں ، آپ میری جان ، مال قانون سے ماورا نہیں لے سکتے اگر ایسا کوئی عمل ہوگا تو عدالت راستے میں کھڑی ہوگی اور ریاست کو روک دے گی۔ان منفی حقوق کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت حقوق بھی ہیں مثلاً میرا حق ہے مجھے تعلیم صحت دی جائے جب یہ تصور اٹھا تو عدالتوں نے بھارت میں ستر کی دہائی میں اس طرح کے فیصلے دینا شروع کئے کہ فلاں جگہ بجلی دی جائے فلاں اسپتال صحیح کیا جائے یہ ایک روایت ہوئی لیکن تاریخ میں ہم نے دیکھا کہ یہ روش کبھی بہت تیز ہوجاتی ہے کبھی بالکل ماند پڑ جاتی ہے اس کا بڑا دارومدار وقت کے چیف جسٹس کی ترجیحات کے ساتھ ہے لہٰذا اگر ہم یہ کہیں اس کو ہم بہت واضح اُصول کی قید میں تمام معاملے کو کرسکتے ہیں تو وہ شاید ممکن نہیں ہوگا اُصولی طور پر یہ بات ضرور ذہن میں رہے کہ آئین اُس چیز کا تصور ضرورت کرتا ہے کہ جو ریاست پر ذمہ داریاں ہیں اُن کو پورا کرنے کے لئے ریاست کو احکامات دیئے جائیں۔ رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ یہ جو اوور ورک جو ججز کر رہے ہیں یہ مناسب نہیں ہیں ججز دن میں دس بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں تھکا ہوا ذہن انصاف کی فراہمی میں کس حد تک کارآمد ہوگا یہ ایک سوال اپنی جگہ ہے ۔ وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان دوسری دفعہ جمہوری عمل مکمل کرے گا اور وقت مقررہ پر انتخابات ہوں گے تو شیخ رشید جیسے لوگ جو خود کو نام نہاد فوج کا ترجمان بنا کے کچھ غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں یہ سب دکانیں بند ہوجائیں گی اسی طرح عدلیہ کا فرض ہے کہ بجائے بابا رحمت کی مثالیں دینے کے اُن کو دو ٹوک انداز میں پاکستان جمہوری نظام اور پارلیمان کی بالا دستی کے حوالے سے بات کریں۔ پروگرام کے آخر میں طلعت حسین نے تجزیہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ کابل سے اب تک 43؍ ہلاکتوں کی خبر آچکی ہے حملہ آوروں کا مقصد بنیادی طور پر بڑا حملہ تھااور اُس حملے سے بہت بڑی خبر بنوانی تھی جو بن گئی اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن اس کو کیسے استعمال کریں گے اس کو ممبئی کے حملے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں گے ۔ کابل کی طرف سے آواز اُٹھنا شروع ہوگئی ہے کہ پاکستان کی طرف ہمیں اس کے اشارے ملتے ہیں جس کے اوپر پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔دنیا میں اس طرح کے حملوں کے بعد جو یکدم بیانیہ بن جاتا ہے پاکستان کے خلاف اس کو کائونٹرکیوں نہیں کرپائے اس پر سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین