• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہب دنیا کا مقدس جذبہ،غلط سمجھنے پر فسادکا ذریعہ بھی بن جاتا ہے،تجزیہ کار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان سلیم صافی نے کہا کہ مذہب دنیا کا سب سے مبارک اور مقدس جذبہ ہے لیکن اگر مذہب کو غلط سمجھا جائے یا اُس کو ذاتی اور سیاسی اور دوسر ے مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے تو پھر فساد اور خونریزی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی مذہب ہی بن جاتا ہے۔ پروگرام میں سربراہ انصار الامہ پاکستان کے فضل الرحمن خلیل، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر،ناظم اعلی رابطہ المدارس پاکستان کے مولانا عبدالمالک، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈاکٹر قبلہ ایازنے بھی اظہار خیال کیا۔سلیم صافی نے اپنے تجزیہ میں مزید کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ پچاس سال کے دوران پاکستان کے اندر عالمی اور علاقائی طاقتوں نے یا خود پاکستان کی مقتدر قوتوں نے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ جہاد اور قتال کے نام پر بھی فساد برپا ہوا اسی طرح ہم نے یہ دیکھا کہ مسلکی اختلاف کی بنیاد پر بھی پاکستانی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے اس کے سد ِ باب کے لئے مختلف اوقات میں کوششیں کی گئیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں کچھ لوگوں، اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں اٹھارہ سو سے زائد علماء کرام نے ایک فتویٰ پر دستخط کئے اور جو کچھ مرتب کیا گیا مختلف حوالوں سے اسے پیغام پاکستان کا نام دیا گیا، رواں ماہ ایوانِ صدر میں ایک تقریب ہوئی جس میں تمام مسالک کے علماء کرام ایک ہی صف میں بیٹھے تھے، اس پیغام پاکستان کے آنے سے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے ہم بات کریں گے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سربراہ انصا ر الامہ پاکستان کے فضل الرحمن خلیل کا کہنا تھا کہ ہر مکتب فکر کے جید علماء نے اس میں شرکت کی اور میرا نہیں خیال اس میں کوئی بھی سرکاری علما میں شمار ہوتے ہوں ایجنڈا اس کا فرقہ واریت کے خاتمے کے حوالے سے ہے ،یہ علماء کا اپنا ایجنڈا تھا ایوان صدر کا اس لئے انتخاب کیا گیا کہ یہ حکومت کا بھی مسئلہ ہے۔اس فتویٰ میں جو بنیادی چیز شامل کی گئی ہے جو ہمارے ملک کے اندر صحابہ کرام کے حوالے سے بات آتی تھی ہم مشتعل ہوجاتے تھے کوئی بدبخت لوگ اہل بیت کے حوالے سے بات کرتے تھے تو بہت بڑا ہنگامہ کھڑا ہوتا تھا لہذا تمام علماء نے متفقہ طور پر یہ بات طے کی ہے کہ نہ اہل بیت کے حوالے سے کسی کو گستاخی کی اجازت ہوگی نہ صحابہ کرام کے حوالے سے، جب یہ آئین کا حصہ بن جائے گا تو اس قسم کی تحریکیں جوغلط ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں گی۔اس بیانیہ کو ہم آگے لے جائیں گے اور اس پر عوام کو بھی اعتماد میں لیں گے، ہم چاہتے ہیں یہ پارلیمنٹ سے بھی پاس ہو۔ یہ حکومت آج بھی امریکا کی اتحادی ہے لوگ کہتے ہیں اگر افغانستان میں امریکا کے اتحادی کے خلاف جہاد ضروری ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں، اس کے جواب میں فضل الرحمن خلیل کا کہنا تھا کہ اس کا تعین علماء کرتے ہیں، افغانستان کے علماء نے اپنے ملک کے حوالے سے کیا لائحہ عمل اختیار کیا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ہے اور جو پاکستان کے جید علماء نے فتویٰ دیا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے یہ اختیار علماء کے پاس ہے۔ پاکستان کے سو فیصد علماء ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں تک اشرف غنی کا جو اعتراض سامنے آیا ہے ہم یہی کہیں گے کہ آپ کے جو بڑی سطح کے علماء ہیں اُن کو بلا کر فتویٰ لیں۔ ہمارے اس فتویٰ کا اطلاق ہماری سرزمین پر ہوتا ہے۔مرکزی جمعیت اہلحدیث پا کستا ن کے امیر سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا کہنا ہے کہ خود کش حملے کا شرعی جواز نہیں ہے،جس زمانے میں افغانستان کا جہاد عروج پر تھا اس زمانے میں بھی ہمارا موقف یہی تھا کہ جہاد کا اعلان کرنا صرف اور صرف ریاست اور حاکم وقت کا کام ہے۔ کیا صرف ان فتوئوں سے ہم پاکستان کو پرامن ملک بنا سکتے ہیں یا آگے بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے اسکے جواب میں ساجد میر کا کہنا ہے کہ فرقوں کی بنیاد پر مدارس کا قائم ہونا اس کی آئین میں گنجائش ہے۔ناظم اعلی رابطہ المدارس پاکستان کے مولانا عبدالمالک کا کہنا ہے کہ طاقت کا استعمال ریاست کرسکتی ہے علماء یا علما کی تنظیمیں نہیں، حکومت اگر گناہگار ہے اس نے اسلامی نظام نافذ نہیں کیا تو آپ وعظ و نصیحت سے عوام کو اپنے ساتھ ملاکر حکومت کو تبدیل کرسکتے ہیں تاکہ ایسی حکومت کا راستہ ہموار ہوجائے جو اسلام نافذ کرسکے۔ اس وقت بھی تعزیراتِ پاکستان میں جھوٹا الزام لگانے کی سزا موجود ہے اس سزا کو اگر عملی جامہ پہنایا جائے تو لوگ الزام نہیں لگائیں گے۔جہاں تک کشمیر کی بات ہے کشمیر کے لوگ پرامن طریقے سے جدوجہد کررہے ہیں وہاں موجود مسلمان قیادت سید علی گیلانی جیسے لوگ اسلحہ کے بغیر کوشش کر رہے ہیں، وہاں جواب دیا جاتا ہے جہاں حکومت نہتے لوگوں پر تشدد کرتی ہے، گولے برساتی ہے پھر وہ جواب دیتے ہیں اور یہ حق ہر آدمی کو حاصل ہے، دفاع کی اجازت شریعت نے دی ہے۔پاکستانیوں کا افغانستان میں لڑنا شرعی لحاظ سے کیسا ہے اس کے جواب میں مولانا عبدالمالک کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ یہ فتویٰ یا اعلامیہ کہہ سکتے ہیں یہ بنیادی طور پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا تیار کر دہ ہے اور اس میں حمایت حاصل ہے قومی اداروں کی، اسلامی نظریاتی کونسل اس بیانیہ کی مکمل تائید کرتی ہے ۔ماضی کے جتنے بھی فتوے آئے وہ ایک لحاظ سے غیر ریاستی تھے اب نئی صورتحال میں تمام علماء، وفاق کے نمائندے حکومتی ادارے ان تمام نے مل کر یہ بیانیہ تیار کیا ہے اس کی حیثیت بہت جامع دستاویز کی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو پارلیمنٹ تک لے جایا جائے اور جب پارلیمنٹ اسے پاس کردے گی تو اس کی حیثیت قانونی اور آئینی بن جائے گی۔انہوں نے کہا کہ اشرف غنی تنقید نہ کریں ان فتوئوں سے فائدہ اٹھائیں۔

تازہ ترین