• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے گناہ کا قتل مجھے ہے حکم اذاں…شفیق الرحمٰن شاہین

ماورائے عدالت قتل عام ہوچکا ہے … معمولی اشیاء پر قتل، بدلہ پر قتل، شادی میں فائرنگ پر ہلاکت، عدالت میں قتل، زمین کی تنازع پر قتل، شک کی بنیاد پر قتل، چندروپوں کی خاطر قتل، خواہشات کی تکمیل کیلئے قتل…مسلکی اختلاف پر قتل، غیرت پر قتل… آج جس طرح قتل وغارت اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع معاشرے میں عام ہوچکا ہےشاید تاریخ انسانی میں اس کی مثال ملتی ہو، معمولی باتوں پر انسانی جان کی حرمت پر جس طرح وار کیا جاتا ہے اور پھر معاشرے میں اس کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے یہ دورجہالت کی وہ مثال ہے جس کو درندگی اورجانوروں کی زندگی سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خون مسلم اتنا ارزاں تو کبھی نہ تھا ، مخالفین کو مروانا، حتی کہ اعلی عہدوں ہر متمکن افراد سیاسی مخالفین کو مروانے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ حالانکہ ہم تو اس دین کے ماننے والے ہیں جس نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ، شریعت میں ناحق قتل کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ، قرآن وحدیث میں ناحق پر سخت وعیدیں سنائی گئیں، سورۃ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اسکی سزا جھنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اسکے لئے دردناک عذاب تیار کرکے رکھا ہے ‘‘(نساء ۹۳) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا سورہ مائدہ میں ہے ’’ اسی وجہ سے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا کہ جو کوئی کسی شخص کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا ، اور جو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے گویا اس نے ساری انسانوں کی جان بچائی ‘‘ اس ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل اسلئے قرار دیا کہ خالق کائنات نے انسانی جان کو حرمت والا بنایا ہے ، اور جو ناحق قتل کرتا ہے انسان کی حرمت پر وار کرکے خالق کو تکلیف پہنچاتا ہے ، یہاں تک کہ اگر ایک انسان کے قتل میں بے شمار انسان بھی شریک ہوں تو سب اس گناہ میں برابر کے شریک ہونگے ، آپﷺ کا ارشاد ہے ’’ اگر کسی ایک مسلمان کے قتل میں تمام آسمان وزمین والے شریک ہوجائیں (یا سکے قتل پر راضی ہوں) تو اللہ ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا ‘‘(ترمذی) ۔اور یہ ناحق قتل کی وعید صرف مسلمان کیلئے نہیں ہے بلکہ اسلامی مملکت میں بسنے والے تمام شہریوں کیلئے برابر کے احکامات ہیں ۔ مسلمان حکمران کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرانسان کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے وہ مملکت میں بسنے والے ہرانسان کے جان ومال کا محافظ ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کو اپنے دین کے معاملے میں اس وقت تک (معافی) کی گنجائش رہتی ہے جب تک وہ حرام طریقوں سے کسی کا خون نہ بہائے (بخاری) اس حدیث کے شارح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کہتے ہیں کسی کا ناحق خون بہانے کے بعد معافی کا امکان بہت دور ہوجاتا ہے ۔’’ کسی شخص کے شر میں ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان کا خون، اس کا مال، اسکی عزت دوسرے پر حرام ہے ‘‘ یہ تھی وہ بنیادی تعلیم جو اس امت کے رہبروراہنما ﷺ نے دی، آج بدقسمتی سے دین کا نام لینے والے بھی دوسرے مسلک کے لوگوں کے قتل کا فتوی جھٹ سے دے دیتے ہیں ، اختلافات تو صدیوں سے تھے لیکن کبھی کسی نے مخالف کی دلیل کا جواب اس کے قتل سے نہیں دیا تھا ، ایسے ہی علماء سوء کی وجہ سے زمین میں فساد برپا ہے ۔ لوگوں کو قتل کرنا تو بڑا اقدام ہے ، محض اشارہ کرنے کو بھی آپ ﷺ نے ملعون ومردود عمل قرار دیا ، ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے ، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ قتل ِناحق کے نتیجے میں جھنم کے گھڑے میں جا گرے ، دوسرے موقع پر آپؐ ارشاد فرماتے ہیں ، ’’ جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو‘‘ (بیہقی) آپﷺ کی تعلیمات میں کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔حتی کہ بعض حالات میں جب اسلحہ کی خریدوفروخت ہوتی تھی تو اس موقع پر بھی سرورکائنات ﷺ تاکید کرتے تھے کہ ننگی تلواروں کو کور کیا جائے اور ننگی تلوار لینے دینے سے پرہیز کیا جائے(حاکم) …کیا نورانی تعلیمات تھی جس کو آج کا مسلمان یکسر فراموش کرچکا ہے ۔آج اکثر یہ خبر آتی ہے کہ فلاں شادی میں فائرنگ سے دولہا ہلاک ہوگیا، باراتیوں کو گولی لگ گئی، خوشیوں کا گھر ماتم کدہ بن گیا … میچ جیتنے کے بعد فائرنگ، کتوں کی لڑائی کے بعد فائرنگ، ڈانس کی محفل میں فائرنگ…یہ عمومی حالات ہیں جہاں اکثر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ، بنیادی وجہ یہی ہے کہ شریعت نے اسلحہ کی نمائش پر مکمل ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ۔معاشرے میں اس فساد کو روکنے کیلئے ہرفرد کو آگے بڑھنا ہوگا ، ظالم کے ہاتھ کو بھی روکنا ہوگا اور ایسے لوگوں کی مکمل بیخ کنی بھی کرنا ہوگی ورنہ یہ سلسلہ جو چل پڑا ہے خانہ جنگی کے ایسے راستے کی طرف لے جائے گا جس کا انجام سوائے تباہی کیا ور کچھ نہیں ہے۔
تازہ ترین