• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

minhajur.rab@janggroup.com.pk

کیا کراچی والے ہمیشہ خوفزدہ رہیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو کراچی کے رہنے والوں کی زباں پر ہے۔ کبھی لسانی فسادات، کبھی مذہبی منافرت، کبھی لوگوں پر دہشت قائم کرنے کے لیے آئے دن شہر کا بند کروانا،کبھی ٹارگٹ کلنگ، کبھی ماورائے عدالت قتل اور اب اکیلے لڑکے کا باہر نکلنا ور گولی کا نشانہ بننا! ہر ایک دو روز کے بعد یہ خبر آتی ہے فلاں جگہ پر ایک نوجوان کا قتل۔ آخر یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا کراچی والے اپنے بیٹوں کو گھروں میں بند کرلیں۔ ان کو اکیلے نہ نکلنے دیں۔ یا ان کے ساتھ گارڈ لگادیں۔ گھر سے نکلنے والے بچے کے پیچھے کیا گھروالےصرف دعائیں ہی کرتے رہیں کہ ہمارا بچہ خیریت سے واپس آجائے کسی گولی کا نشانہ نہ بننے۔ آخر کب تک یہ خوف کی فضا قائم رہے گی؟ آخرکب تک اس لاوارث شہر کے لوگ اپنے نوجوانوں کے لاشے اٹھاتے رہیں گے؟ کبھی کسی وجہ سے اور کبھی کسی وجہ سے۔ کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں کچھ کریں گے بھی یا نہیں؟ ایسا لگتا ہے جان بوجھ کر یہاں کے شہریوں کو خوف میں مبتلا رکھا جارہا ہے تاکہ نہ تو شہر کی ترقی کے لیے کچھ کرنا پڑے نا ہی اس شہر کے شہری اپنی ذاتی زندگی میں ترقی کے منازل طے کرسکیں۔ بلکہ یہاں تک سوچا جارہا ہے کہ شاید کچھ طاقتور عناصر جان بوجھ کر یہاں کے شہریوں کو پستی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو لوگ پیسے والے تھے وہ ملک سے باہر چلےگئے اور وہ نوجوان جوپڑھ لکھ کر ملک کا سرمایہ بن سکتے تھے۔ حالات سے مایوس ہوکر دوسرے ممالک کے شہری بن گئے۔ اب اس شہر میں اکثریت ان لوگوں کی رہ گئی ہے جو اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور کسی صورت اس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جن کے پاس وسائل نہیں تھے کہ ا س شہر کو چھوڑ کر جاتے۔ یوں انیس سال ہونے کے باوجود اس کی آبادی دگنی نہ ہوسکی۔ کیونکہ اصل باشندوں کی اکثریت دوسرے ملک منتقل ہوچکی ہے اور دوسرے صوبوں اور شہروں سے منتقل ہوکر جو لوگ کراچی شہر میں آتے ہیں وہ اس شہر کو اپناتے ہیں بلکہ اپنے مستقل پتے میں وہ اپنا آبائی گھر ہی لکھواتے ہیں ایسے میں شہر کی آبادی میں اضافہ کو کم ہی ہونا تھا۔ملک کے کسی بھی حصے میں کوئی واقعہ ہوجائے اس پر احتجاج ہو تو کراچی میں یہ احتجاج بھر پور طریقے سے کیا جاتا ہے۔ لیکن کراچی والوں پہ جو یہ خوف کے سائے پچھلے تقریباً 40 سال سے منڈلارہے ہیں اور ہرسال بے قصور اور معصوم لوگوں کے ہزاروں لاشے اٹھائے جاتے ہیں لیکن افسوس آج تک کسی " شہر" میں کراچی والوں کےحقوق کے لیے کوئی احتجاج نہ ہوا کبھی کراچی شہر کا نوحہ نہ پڑھاگیا۔ کبھی افسو س کا اظہار نہ کیا گیا ۔بلکہ الٹا اس شہر کے لوگوں کو اجنبی اور دہشت گرد سمجھا گیا اتنا کچھ ہونے کے باوجود یہ شہر جس طرح سب کو اپنے اندر سمیٹ رہا ہے کیا دہشت گرد شہر ایسا کرسکتا ہے ؟ کیا کوئی غیر(اجنبی) کسی کو خوش آمدید کہہ سکتا ہے۔ پورے پاکستان سے ایک درخواست ہے۔ اس شہر اور شہروالوں کو اپنا سمجھئے یہاں کہ بچے ہوئے نوجوانوں کو زندہ رہ کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے دیں۔ اور اس خوف کی فضا کو ختم کیجئے۔ بہت ہوچکا۔

تازہ ترین