• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منوبھائی آپ کا کام چلتا رہے گا وجدان…ڈاکٹرصغرا صدف

sughra.sadaf@janggroup.com.pk

زندگی موت روز کا کھیل ہے۔یہ ایک ایسی آنکھ مچولی ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔زندگی ایک درخت کی مانندہے جس پرنئی ٹہنیاں ،کونپلیں اورپھولوں کی نموکے ساتھ ساتھ اپنی معیادپوری کرلینے والے پھل ،پتے اورشاخیں جُداہوکرریسائیکلنگ کے طویل سفرپرنکل جاتے ہیں۔کچھ بیج اور کچھ کھاد کی صورت زندگی کے تسلسل میں اپنا کردار اداکرتے ہیں۔کائنات کے ہرذرے میں زندگی موجود ہے۔بظاہرساکن نظرآنے والی چیزوںکے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ اور بننے بکھرنے کا عمل جاری رہتا ہے یعنی حرکت ہو رہی ہوتی ہے مگر محسوس نہیں ہوتی ۔یہ کلیہ صرف جمادات اور نباتات تک محدود نہیں بلکہ حیوانوں اور انسانوں پربھی صادق آتا ہے۔وہ بھی زندگی کے لامتناہی سفرکے مسافرہیں۔ریاضت اورجدوجہدسے انسانی شعورترقی کی منزلیں طے کرتا اگلے پڑائو کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ہماری سماعت ہرروز آنے اورجانے والوں کا تذکرہ سنتی ہے۔ان میںہمارے عزیز ،رشتہ دار بھی ہوتے ہیں جن کا صدمہ ہمارا دل جھیلتا ہے مگرکچھ لوگ جن سے ہمارا اخلاص کا رشتہ ہوتا ہے وہ ہمارے احساسات کوزیادہ گھائل کرجاتے ہیںلیکن اس سے ہٹ کرکچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جواپنے آدرش،انسانی اقدار اور اصولوں کی وجہ سے ایسی حیثیت اختیارکرلیتے ہیں کہ اُن کا بچھڑنا ہمیں ڈانواں ڈول کردیتا ہے۔پورے معاشرے کو ملول کردیتاہے۔
منو بھائی بھی ایک ایسی ہستی کانام ہے۔لاہورنے ایک ہی منیر(منیرنیازی)کے سرپربادشاہی کی پگ رکھنی تھی سو اس احمد کومنوبھائی کا لقب عطاء ہوا۔لفظ بھائی نے اُنھیں زندگی اورصحت کی اذیتیں جھیلنے والوں کیلئے سایہ دار درخت بننے کی صلاح دی تو وہ تھیلیسمیا جیسے مہلک مرض میں مبتلا بچوں کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا بن گئے۔جن کی سانسوں کیلئے ہرروز تازہ خون کی ضرورت تھی لیکن نیک نیتی نت نئے وسیلے پیدا کرتی رہی۔نصف صدی سے زیادہ صحافت اور کالم نگاری سے وابستہ رہنے والا منو بھائی ہمیشہ ایک نظرئیے سے وابستہ رہا۔معاشرتی اونچ نیچ کے خاتمے اور انصاف کے حامل معاشرے کیلئے کوشاں منو بھائی کو کبھی سمجھوتے کے کسی کاغذ پردستخط نہ کرنے پڑے۔ترقی پسند سوچ ،روشن خیالی اور احترام ِ آدمیت کے تصورات اُنھیں بھٹو کے قریب لے گئے۔جمہورکی معاشی آزادی اورسماجی وقارکیلئے کئی محاذوں پربرسرِپیکار رہے۔انھوں نے ڈرامے ،شاعری اورکالم نگاری کے ذریعے معاشرے کا اصل چہرہ بے نقاب کیا۔کبھی نرم لفظوں میں اصلاح کی بات کی تو کبھی جارحانہ انداز میں احتساب کے صاحب بہادر سے طبقاتی تقسیم کے حوالے سے روا رکھے جانے والے سلوک کی باز پرس کی اور پھرآخرمیں صرف باتیں کرنے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے کی بجائے کچھ کرنے اور جابرقوتوں کے خلاف لڑنے کااعلان کیا۔اُن کامخاطب جابر طاقتوں میں ہروہ فرداورطبقہ شامل تھا جو کسی نہ کسی حوالے سے انسانوں کے استحصال میں شریک ہو۔
منو بھائی خوش قسمت تھے جنھیں ہرطبقہ ء فکر کے لوگوں کی محبت ملی۔ہرپارٹی کے لوگ اُنھیں ان کے فلسفہ حیات اور نظریات کے باعث تکریم کی نظر سے دیکھتے تھے۔اُن سے ملنا پسندکرتے تھے اُن کے تلخ مگرسچے جملے اس لئے برداشت کرلئے جاتے تھے کہ وہ کسی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے بلکہ خلقت کی فلاح اُنہیں اس طرف راغب کرتی تھی۔وہ یوں بھی خوش قسمت تھے کہ زندگی اپنے نظریات کے مطابق جی کرگئے۔ہمیشہ حق اور سچ کا عَلم بلند رکھا ۔عورتوں کی عزت اوراُن کے حقوق کے لئےآواز بلند کرنے والوں میں ہمیشہ پہلی صف میں کھڑے نظرآتے ۔مردعورت کی برابری والی منطق سے بالکل متفق نہیں تھے ہمیشہ عورت کو فوقیت دی۔ہرروپ میں اُس کے کردارکوسلام پیش کیا۔نوجوانوں کا حوصلہ بڑھانے اور بچوں کا مورال بلند کرنے کیلئے وہ اُنھیں زیادہ ذہین اور سمجھدار کہتے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ اگرکوئی بچہ اُن سے عمرمیں سترسال چھوٹا ہے تو وہ دراصل اُن سے عقل ودانش میںسترسال آگے ہے کیونکہ ہرنیا آنے والا بچہ وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق زیادہ ذہانت لیکر پیدا ہوتا ہے ۔ ہرکسی سے اپنائیت کا اظہار کرنا،ملنے والوں کا ہاتھ چومنا۔بچوں کی طرح شرارت کرنا اورمسکرانا اُن کی عادت تھی اسلئے ہر ایک اُنہیں اپنا سمجھتا تھا۔وہ کئی دفعہ بیمار ہوئے۔کچھ سال پہلے تو اُن کے بچنے کی اُمید ہی نہ تھی۔ہرسماعت کسی بری خبرکیلئے تیارتھی مگرپھروہ سنبھلتے چلے گئے۔ اُن کا حوصلہ بیماری کوشکست دے کراُنہیں پھرفعال کردیتا۔میں اُن کا انٹرویو کرنا چاہتی تھی ۔ایک محفل میںذکرکیا۔ہفتے کوفون آگیا کب آرہی ہو۔میں نے جلدی آنے کا وعدہ کیا۔اُنھوں نے کئی فون کئے مگرمیری بے معنی مصروفیت نے مہلت ہی نہ دی اور وہ اچانک بن بتائے اگلے سفر پرروانہ ہوگئے ۔بیماری توکئی سالوں سے اُن کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگروہ اُکھڑتے سانسوں کی حالت میں بھی مایوس نہ ہوئے نہ ہی بیماری کی اذیت اُن کے مزاج پراثرانداز ہوئی گزشتہ سال اُنھیں فروری میں پلاک حکومتِ پنجاب کی طرف سے پرائیڈ آف پنجاب سے نوازا گیا۔ابھی چھ فروری کو اُن کی سالگرہ آرہی تھی اور ہم اُس کا اہتمام بھی کررہے تھے مگر اِس بار وہ اپنے دوست شفقت تنویر مرزا کے ساتھ ہوں گے۔دونوں چھ فروری کو پیدا ہوئے تھے مگرہم اپنے دُکھ کی تلافی کیسے کریں۔شہرمیں کوئی اُن جیسا نہیں۔جس سے اپنا دکھ بیان کیا جاسکے جس کی پیروی کی جاسکے جس سے زندگی کے معنی اخذ کئے جا سکیں جس کے لفظوں کی لو سے راستہ تلاش کیا جاسکے۔ منوبھائی جیسے لوگ جو مثالی کردار کے حامل ہوںجن کا ہرعمل انسانیت کی بقاء اور وقارسے جُڑا ہو اُن کا چلے جانا پورے معاشرے کوسوگوارکردیتا ہے اس لئے کہ نظریاتی لوگوں کے وجود سے ہی دنیا رہنے کے قابل ہوتی ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کے آج ہم میں منو بھائی جیسی فکروالے کتنے لوگ ہیںاورخوشی کا احساس بھی کہ ہم نے بحیثیت قوم منّوبھائی کو پہچانا،اُنھیں چاہا،اُن کے نظریات کو سلامی دی اور اُن کے لفظوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنا احتساب کرنے کی کوشش منو بھائی سے ہماری محبت تقاضا کررہی ہے کہ تھیلیسیماکے مریضوںپردستِ شفقت رکھیں اور منو بھائی کو یقین دلائیں کہ اُن کا کام چلتا رہے گا۔

تازہ ترین