• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک غیر سرکاری تنظیم ہر سال تعلیمی شماریہ جاری کرتی ہے جو تمام اضلاع کی تعلیمی درجہ بندی پر مشتمل ہوتا ہے ۔ پرائمری تعلیمی ڈھانچے کے حوالے سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پہلے پندرہ شہروں میں بارہ شہر خیبر پختونخواہ کے ہیں جبکہ پنجاب کے تین شہروں میں گجرات کا آٹھواں ، جہلم کا بارہواں اور لودھراں کا پندرہواں نمبر ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے اقدامات کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔مجموعی طور پر ہری پور پہلے ،فیصل آباد دوسرے اور گوجرانوالہ تیسرے نمبر پر ہے ۔اس درجے میں کراچی غربی چودہویں اور لاہور 32ویں نمبر پر ہے جبکہ کوئٹہ کا نمبر 45واں ہے ۔بھٹوز کا شہر لاڑکانہ 87ویں اور پشاور64ویں نمبر پر ہے ۔یہ ادارہ گزشتہ پانچ سال سے یہ درجہ بندی جاری کررہا ہے ۔اس رپورٹ کے معیارپر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر یہ بات اہم ضرور ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے تقابلی جائزے کا کام کسی نہ کسی سطح پر ہورہا ہے ۔جب خامیاں سامنے آئیں گی تو پھر بہتری کے بارے میں سوچ و بچار بھی ہو گا۔اسی این جی او کے ہی مطابق دو کروڑ 26لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں جن کو سکولوں میں لانے کے لئے پانچ لاکھ 65ہزار مزید اساتذہ درکار ہوں گے ۔اس مقصد کے لئے جو وسائل درکار ہوں گے انہیں پورا کرنے کے لئے جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جانا چاہئے مگراکنامک سروے 2016-17کے مطابق گزشتہ مالی سال میں یہ شرح 2.3 فیصد رہی۔کل تعلیمی اخراجات 663.36ارب روپے تھے جومالی سال2015کے مقابلے پر 10.74فیصد زائد تھے۔ پاکستان میں اب سرکاری اسکولوں کے مقابلے پر پرائیویٹ اسکولوں کا چلن عام ہو چکا ہے۔اکنامک سروے کے مطابق شہروں میں 56 فیصد اور دیہات میں 24فیصد بچے غیر سرکاری اسکولو ں میں پڑھتے ہیں ۔یہ بچے اس لئے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔2001ءسے 2014ءکے درمیان سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح 60سے 70فیصد کمی ہوئی ہے ۔گویا ریاست نے نہ صرف عوام کو یہ بنیادی سہولت فراہم کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے بلکہ وہ آئین کے آرٹیکل 25-Aسے بھی روگردانی کر رہی ہے جس کے تحت پانچ سے سولہ سال کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔شہروں میں نہ تو اب نئے اسکول اور کالج کھلتے ہیں نہ اسپتال ،یہ تمام کام اب پرائیویٹ شعبے کے سپرد ہے جوریگولیشنز کی عدم موجودگی یا ان کی عدم فعالیت کی وجہ سے عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہا ہے ۔نامور ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق رحمٰن نے برسوں پہلے کہا تھا کہ مڈل کلاس اپنی کل آمدنی کا ساٹھ فیصد اور اشرافیہ اپنی آمدنی کا ایک فیصد بچوں کی تعلیم پر صرف کر رہی ہے ۔یہ شرح آج یقیناً اس سے بھی بڑھ چکی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان معیشت کو ہوتا ہے کہ جو پیسہ حرکت پذیر ہو کر مختلف صنعتوں اور شعبوں کو ترقی دینے کا سبب بنتا وہ صرف ایک شعبے یعنی تعلیم میں جا رہا ہے جس کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ جنہوں نے ایک دو دہائی پہلے گلی محلے کے اسکولوں سے ابتدا کی تھی آج ان کا نیٹ ورک پورے ملک میں اسکولوں سے ہوتا ہوا یونیورسٹیوں تک پہنچ چکا ہے ۔سرکاری اسکول سمٹ رہے ہیں اور غیر سرکاری پھیل رہے ہیں ۔مفت تعلیمی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں مدارس کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت مدارس کی تعداد تین سو سے کم تھی جبکہ فی الوقت یہ تعداد 35ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 35لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں ۔وفاقی دارلحکومت میں تو صورتحال اور بھی شدید ہے جہاں پر 348اسکولوں کے مقابلے پر 374مدارس ہیں اور ان میں پڑھنے والوں کی تعداد بھی سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد سے زیادہ ہے ۔آج یہاں تین طرح کے نظام ہائے تعلیم ہی نہیں بلکہ تین مختلف طرح کے طبقات پیدا ہو چکے ہیں جن کے نظریات ہی نہیں بلکہ ترجیحات بھی مختلف ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں تو بے جا نہ ہو گا ۔ آج پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 9فیصد کے قریب پہنچ چکی ہے ۔جس کی وجوہات میں جہاں پر قومی ترقی کی سست روی ہے تو دوسری جانب ایسے تعلیم یافتہ افراد کی فراوانی ہے جن کے ہاتھ میں ڈگریاں تو ہیں مگر ضروری ہنر نہیں ہے ۔ مغرب میں اعلی ٰ تعلیم صرف عالی دماغوں کے لئے مختص ہوتی ہے باقی طلبا اپنے رجحان کے مطابق کوئی ہنر سیکھتے ہیں اور برسرِ روزگار ہو جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے پنجاب میں ٹیوٹا کی حد تک کچھ کام ضرور ہوا ہے مگر اسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نہ صرف افرادی قوت میں خود کفیل ہوں بلکہ اسے دنیا میں بر آمد بھی کر سکیں ۔ پاکستان کے لئے یہ ایک مثبت اظہاریہ ہے کہ ا س کی ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔یہ اپنی قوتِ بازو سے ملک کی تقدیر دن رات میں بدل سکتے ہیں لیکن اگریہ بے راہ رو ہو گئے تو یہ امر تباہ کن ہو گا ۔تین مختلف طرز کے نظام ہائے تعلیم کے بعد یہ الگ الگ سوچ کے مالک ضرور ہیں لیکن ایک بات ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں ۔جو اضلاع کل تک پسماندہ شمار کئے جاتے تھے آج وہاں تعلیم عام ہو رہی ہے ۔عصری شعور بھی بڑھ رہا ہے اس لئے ریاستی اداروں پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ اچھی طرز حکمرانی کو رواج دیں ۔اس وقت عوام میں آگہی کہیں آگے نکل چکی ہے۔یہ گلا سڑا نظام اور اس کے نمائندے اس دوڑ میں بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں ۔

تازہ ترین